Saturday, August 20, 2011

اینٹ کا جواب پتھر سے

میں نئے زمانے کا مسلمان ہوں اس لیے اینٹ کا جواب پتھر سے دینا جانتا ہوں
یہ کام دو طریقوں سے کیا جا سکتا ہے؛
اول تو یہ کہ جدھر سے اینٹ آئی ہو اسی سمت جوابا پتھر پھینکا جائے جو ایک قدیم رد عمل ہے
دوم یہ کہ جوابا پتھر اپنے ہی سر مار لیا جائے

چونکہ میں نئے زمانے کا مسلمان ہوں جو قدامت پرستی کا قائل نہیں ہوتا اسلئے میں آخرالذکر یعنی دوسرے رد عمل کا شیدائی ہوں
اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپکے جوابی پتھر سے کسی غیر مجرم کو نقصان پہونچنے کا خدشہ نہیں رہتا اور نہ ہی کوئی اپنی اینٹوں کو آپ کے مضبوط پتھروں سے بغیر زر مبادلہ ادا کیے تبدیل کر سکتا ہے

لیکن سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کے پتھر تو اپنے ہی پاس رہتے ہیں اور بغیر زر کاری کیے اینٹوں کی شکل میں سود بھی ملتا رہتا ہے

اس رد عمل کی ٹھوس مثال میرا یہ لسانی ردد عمل ہے

ایک گجراتی خیر خواہ نے زیرہ کو zeerah کی بجاۓ jeera لکّھا، جب ہم نے ٹوکا کہ یہ غلط ہے تو انہوں نے کہا کہ اردو میں جو ہو گجراتی میں یہی صحیح ہے.
تب جاکر ہمیں یہ احساس ہوا کہ اگر ہم زیرہ کو cumin ہی لکھتے تو یہ نوبت نہ آتی اور ہم نے ایسا کرنے کا تہیہ کرلیا. ہمارے اس طرز عمل میں مندرجہ بالا تمام پہلو صاف نظر آتے ہیں.اب جب ہم انٹرنیٹ پر کچھ لکھتے ہیں تو cumin کے قوس میں زیرہ لکھ دیتے ہیں ، اور جب ہمارا عزیز گجراتی دوست لکھتا ہے تو jeera کے قوس میں cumin لکھتا ہے.
اور چونکہ ہم یہ جان چکے ہیں کہ گجراتی میں صحیح کیا ہے تو ہم جب بھی کسی گجراتی سے مخاطب ہوں جیرا کے تلفّظ کا خاص خیال رکھتے ہیں.

Thursday, August 11, 2011

(ہٹلری اور فلسطینئی (مع زائد حمزہ کے

ہم بچپن ہی سے اپنے بڑوں سے یہ لفظ سنتے آئے ہیں اور یہ فقرہ بھی کہ وہ بہت "ہٹلری کررہا ہے" یا "اس کی ہٹلری نہیں چلےگی".
مسلمانوں میں یہ فقرہ ضد، اڑیل پن، ہٹ دھرمی وغیرہ کیلئے بڑے شوق سے استمعال ہوتا آیا ہے
یہودیوں کا ہٹلر پر دائمی اور حتمی الزام ہے کہ اس نے ان کا قتل عام کروایا
دوسری طرف مسجد اقصیٰ کا دم بھی ہم لوگ ہی بھرتے آئے ہیں
اس کا یہ مطلب ہے کہ دنیا کے تیسرے کونے میں رہنے والے جاہل مسلمان تک یہودیوں کے غم میں انجانے طور پر شریک ہیں
لیکن کسی مظلوم کو یہ نہیں کہا جاتا کہ یہ تو "تمہاری فلسطینئی ہے" یا تم تو "یہودیت کا شکار" ہو
"اور نہ ہی یہ کہ "بش ہٹلری پر آمادہ" ہے یا امریکہ بہت "ہٹلری کررہا ہے