Saturday, January 06, 2007

اردو قاعدہ -- مدد درکنار


اردو کی گراں قدر ہستی مرحوم رشید حسن خان صاحب لفظ "ہی" کے متعلّق ایک ضروری قاعدہ یوں بیان کرتے ہیں؛
=٭ ہی کا تعلّق جس لفظ سے ہوگا، یہ اُسی کے ساتھ آئے گا۔ اِن دونوں کے درمیان کوئی اور لفظ نہیں آئے گا ٭=
اور جب یہ ہوتا ہے تو اکثر لفظ "ہی" متعلّق لفظ کے ساتھ مرکّب بنالیتا ہے، جیسے؛

اُس + ہی = اُسی  اِس + ہی = اِسی
اُن + ہی = اُنھی  اِن + ہی = اِنھی
وہ + ہی = وُہی  یہ + ہی = یہی
سب + ہی = سبھی  جب + ہی = جبھی
تب + ہی = تبھی  اب + ہی = ابھی
کب + ہی = کبھی  ہم + ہی = ؟

یہ سارے مرکّب حسب ِ توقّع استعمال ہوتے ہیں۔

لیکن اشعار میں اکثر ایک لفظ ہمیں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً فیض اور داغ کے درج ذیل اشعار؛

ہمیں سے سُنّت ِ منصور وقیس زندہ ہے
ہمیں سے باقی ہے گُل دامنی وکَج کُلہی

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

کیا یہ لفظ ہمیں، ہم اور ہی الفاظ کا مرکّب ہے؟
اگر ہاں تو یہ مرکّب ہمی، ہمھی یا ہمہی کیوں نہیں لکھّا جاتا، اضافی نُون غُنّہ کہاں سے آتا ہے؟

4 Comments:

At 2:28 AM , Anonymous Anonymous said...

ih aik astsn@I hy .

 
At 2:30 AM , Anonymous Anonymous said...

اُوپر کی تحرير کيلئے معذرت ۔

يہ ايک اِستثنٰی ہے ۔ دوسری زبانوں میں بھی ہوتے ہيں ۔

 
At 8:40 AM , Blogger urdudaaN said...

محترم،

معلوماتی جواب کیلئے شکریہ۔
میں اردو پر اعتراض نہیں کررہا بلکہ جاننا چاہ رہا ہوں۔

 
At 7:12 AM , Anonymous Anonymous said...

yahaan bhi corruption (bad-un-waa-ni) hi hai aur main kisi tabsereh se qaasir hoon.

 

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home