Friday, November 03, 2006

سفر ِعید اور تعلیمی تاش


عموماً ہر عید بطور ِ خاص عید الفطر پر میں اپنے وطن عید منانے جاتا ہوں۔
آجکل چونکہ عید اور دیوالی تقریباً ایک ہی ہفتہ میں منائے جارہے ہیں اسلئے سفر کا مسئلہ دو گنا ہوگیا ہے۔ جب ہم شہر سے اپنے قصبہ کیلئے نکلتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ لوگوں شہر چھوڑ کر بھاگ رہے ہوں۔ شہروں میں بسنے والوں کا دل دراصل اپنے اپنے وطن میں ہوتا ہے۔
یہی حال واپسی میں بھی رہتا ہے کہ اب ہر ایک بس شہر کی جانب بھاگ رہا ہے گویا دیہات و قصبے قحط زدہ ہوگئے ہوں یا یوں کہہ لیجئے کہ سب گیدڑ بن کر اس کہاوت کے مصداق شہر کی طرف بھاگ رہے ہوں۔

سفر کے اس مسئلہ سے نمٹنے کیلئے جب ہم نے اپنوں سے کہا کہ اس مرتبہ کیوں نہ عید شہر میں منائی جائے کہ مخالف سمت سفر انتہائی پر سکون اور آسان ہوگا، تو وہ راضی ہوگئے۔ ہماری دو باجیاں "مع شوہر و عیال" ہمارے یہاں پہنچ گئیں۔ انکے پانچ لڑکے ہیں جن کی عمریں چھ سے سولہ سال کے درمیان ہیں؛ ذیشان، دانش، خرّم، آفتاب، و فرّخ۔
یہ سبھی لڑکے اردو مدارس (اسکولوں) میں زیر ِ تعلیم ہونے کی وجہ سے انگریزی سے بہتر اردو جانتے ہیں۔ آفتاب تو پڑھنے سے ایسا شغف رکھتا ہے کہ کتابیں چھین لینی پڑتی ہیں۔ خدانخواستہ یہ ہماری آخری پیڑھی ہے جسے اردو تعلیم نصیب ہورہی ہے۔ ایک ہی دن میں ان بچّوں نے شور مچانا اور جھگڑنا شروع کردیا اور انہیں مصروف رکھنا ضروری ہوگیا۔ ہماری دلچسپی اور ان کی بیچینی کے سبب "تعلیمی تاش" کا خیال آیا۔ لیکن تعلیمی تاش اب آسانی سے دستیاب نہیں ہیں، شہروں میں تو بالکل نہیں۔

ہم نے بچوں سے دیوالی کے پٹاخوں کے خالی ڈبّے لانے کو کہا اور پھر اس کے ٹکڑے کیے۔ ہر ٹکڑے پر ایک حرف لکھا، الف سے ے تک اور دوبارہ الف سے ے تک۔ مزید از آں الف، و، ی اور ے کے دو دو اضافی تاش بنائے۔ ایک علیٰحدہ کاغذ پر حروف کی قیمتیں بھی لکھ لی گئیں۔ اسطرح عارضی تعلیمی تاش وجود میں آئے۔ بچّے اب فجر کے بعد، ظہر کے پہلے اور بعد بھی تاش کھیلنے میں مشغول رہتے۔ لیکن فوراً ہی ہمارا چین لینا پھر دوبھر ہوگیا۔ بچّے ایک دوسرے سے الفاظ پر بحث کرنے لگتے کہ اس لفظ میں ذ نہیں ز ہونا چاہئے۔ کوئی کہتا کہ اس لفظ میں تو ض ہوتا ہے۔ اس تکلیف کے باوجود مجھے بڑی خوشی ہوتی کہ علم اور خاص طور پر اردو زیر ِ بحث ہے۔

اب جب وہ لوگ عید کے بعد واپس چلے گئے ہیں میں نے فرصت ملتے ہی لیپ ٹاپ پر تاش بنائے ایک کاغذ پر نَو اور انہیں چھاپ لایا۔ اس چَھپے کاغذ کو دوسرے سخت کاغذ پر چسپاں کیا اور اوپر سے شفاف پلاسٹک کی تہہ چڑھا کر احتیاط سے ٹکڑے کیے۔ اب ان تاش کے پتّوں کو نہ پانی کا خطرہ ہے نہ میلے ہوجانے کا ڈر اور لگتے بھی پڑے بھلے ہیں۔
انتظار ہے تو بس کسی اردو والے کا کہ ایک بازی ہوجائے!

5 Comments:

At 7:07 AM , Blogger editor said...

yes taalimi tash, i have. had bought them from late poet Waali Aaasi's shop in Lucknow. I was a kid then, the packet was open and so I asked...is the pack complete? And Waali Aaasi sharply retorted, 'ham gaddi ke andar baithe thode hi hain'.....that was an interesting jawab.

 
At 8:07 AM , Blogger urdudaaN said...

oh, aap ke paas bhi taaleemi taash haiN! to hojaaey 1 baazi?

 
At 3:00 PM , Blogger editor said...

arrey huzoor isi liye to aap ki taraf is tezi se dil khinchtaa hai....:) jab chahiye ho jaaye....khair hum to bhopal mein hain...aapko daawat dete hain yahaan tashrif laiye.....

 
At 9:46 AM , Blogger urdudaaN said...

azeez dost,
is ifratafri(IT) ke daor meiN jaal(web) par to mulaaqaat aasaan hai, lekin maayajaal se fursat nikaalna bahot mushkil hai :)
aap ki daawat to ham ne qubool karli, zahe naseeb. hamaare 1 saathi jabalpur se haiN aor unhoN ne bhi kanha(ghaliban tiger reserve ka yahi naam hai) ki daawat di hai. 1 safar meiN 2 daawateiN!! :)
shaayad aap bambai aate raehte haiN. agar saHeeH hai to daawat dene ka paehla haq mera banta hai. aapka e-mail ID mere paas hai, filhaal mera ID hai urdudaan@yahoo.com

 
At 3:59 PM , Blogger Madhu said...

By typing in Urdu search the web using Yanthram.
http://www.yanthram.com/ur/

 

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home