Saturday, August 15, 2015

بشکریہ والدِ محترم

میرے والد نے یہ شعر اپنے بچپن میں کسی کتاب میں لکھا دیکھا تھا، جو آج تک ان کی راہ نمائی کرتا رہا ہے۔

ZOOM

Tuesday, July 28, 2015

ڈاکٹر ابوالفاخر زین العابدین ابوالکلام

سابق صدرجمہوریہ ہند ڈاکٹر ابوالفاخر زین العابدین ابوالکلام کی رحلت
ان کی شخصیت میں غالباً اتنی خوبیاں تھیں جتنے میرے اندازے کے مطابق ان کے نام میں دیگر نام پہچانے جاتے تھے اور ان شخصیات کی خوبیاں
ابوالفاخر
زین العابدین
ابوالکلام
جس سے میرے اندازے کے مطابق وہ بن گئے تھے
Avul Pakir Jainulabdeen "A. P. J." Abdul Kalam

Recently, there were two interesting articles written about him by Muslims reflecting on his tenure as a President:
A Necrology For APJ Abdul Kalam -- Abdul Majid Zargar
A President And A Yogi: Abdul Kalam’s Symbolism -- Farzana Versey

Saturday, July 25, 2015

معیاری عربی اردو تغرے

I find all those animated .gif images with text animation running on Urdu blogs not doing justice to the rich tradition of Perso-Arabic calligraphy or contemporary high resolution displays. On the other hand, the tuGHraas below are light weight in terms of both download size & computing requirements, hence very modern & futuristic - IMHO.
اسمائے حُسنیٰ = أسماء الحسنى


Khat-e-deewan and Urdu meaning - No background


With English meaning & white text shadow on black background

These animated calligraphic tuGHraas are scalable. They are fully customizable for content, font, shadow, color & background. I host these tuGHraas for everyone to use for FREE. These will automatically adapt to whatever small or larger space you have available on your website or blog.

With Urdu & English meaning & black shadow on yellow-to-blue background

It is very simple to get one of these running on your blog or website with little effort and no plugins. One just needs to point to one of these instead of the image (.gif) file. [Please reach out to me, if you need one that gels well with your beautiful site theme - for FREE.] I look forward to hearing feedback, queries or more requirements from one & all.
Shukriyah!

Transparent tuGHra With illuminated Allah in Arabic in the background

Friday, September 20, 2013

صفحہ اول

paehla nastAleeqi namoonah: naya aaGHaaz

Tuesday, September 03, 2013

یار کو ہم نے جا بجا دیکھا

Afsos huwa keh is ka aSl Urdu mawaad google waGHaerah ke ilm meiN naheeN hai, lihaazah hamaari pahoNch se baahar hai. Romi Urdu taehreer is jagah hai, lekin GHaaleban laaparwaahi ki shikaar hai :(

maiN ne apni behtareen koshish karke durust karne ki gustaaKHi ki hai. meri qaari'een se bazaate-KHud sunne aor apni aaraa se nawaazne ki guzaarish hai.

ZOOM

yaar ko ham ne ja ba-ja dekha | kaheeN zaahir kaheeN chhupa dekha

kaheeN mumkin huwa kaheeN waajib | kaheeN faani kaheeN baqa dekha

kaheeN woh baadshaahe-taKHt nasheeN | kaheeN kaasah liye gada dekha

kaheeN woh dar libaase-maAshooqaaN | bar-sare naaz aor ada dekha

kaheeN aashiq niyaaz ki soorat | seenah biryaaN wo dil jaza dekha

Aawaaz Aabidah parweeN - Youtube

Wednesday, April 11, 2012

Open to Vandalism

Urdu & Muslim culture is open to vandalism, even Muslims take a lion's part in it.
While the progressives have dumped Laxmi and Sircar in favour of Lakshmi and Sarkar, and there is even an H in Hrithik, the attitude of Muslims (and towards Muslims) remains hopelessly orientalistic.

Let's review these instances:

1. I heard two of my non-Muslim colleagues uttering shamelessly "maiN kya urdu meiN bol raha hooN", when someone didn't get what they were saying. [I stopped talking about Marathi movies at all in response to this.]

2. One Mr. Sarosh Khule (second name changed) wrote to a group of Muslims (IT Professionals) about a school. All those Muslim guys recklessly kept referring to him as "Saroch" and "Saroche" in their emails.

3. A Muslim news portal misspelled the name as "Dr. Chisty" instead of "Dr. Chishti". Interestingly, the source they referred in their news [http://www.thenews.com.pk/article-43925-Dr-Chishti-released-from-Indian-jail] had it correct.

4. While referring to people someone named Muhammad Afsar, it is incorrect to refer to him as Muhammad later on in the same passage. He should instead be referred to as Afsar. Not only do non-Muslim media resort to this apathy, Muslim media follow the suit instead of correcting them.
E.g. A Muslim news portal had this:
Zahida Parvez, prime accused in activist Shehla Masood's murder ......
Parvez, an interior designer, was presented before Special Judge ....
Masood was shot dead outside her house ...

Saturday, August 20, 2011

اینٹ کا جواب پتھر سے

میں نئے زمانے کا مسلمان ہوں اس لیے اینٹ کا جواب پتھر سے دینا جانتا ہوں
یہ کام دو طریقوں سے کیا جا سکتا ہے؛
اول تو یہ کہ جدھر سے اینٹ آئی ہو اسی سمت جوابا پتھر پھینکا جائے جو ایک قدیم رد عمل ہے
دوم یہ کہ جوابا پتھر اپنے ہی سر مار لیا جائے

چونکہ میں نئے زمانے کا مسلمان ہوں جو قدامت پرستی کا قائل نہیں ہوتا اسلئے میں آخرالذکر یعنی دوسرے رد عمل کا شیدائی ہوں
اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپکے جوابی پتھر سے کسی غیر مجرم کو نقصان پہونچنے کا خدشہ نہیں رہتا اور نہ ہی کوئی اپنی اینٹوں کو آپ کے مضبوط پتھروں سے بغیر زر مبادلہ ادا کیے تبدیل کر سکتا ہے

لیکن سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کے پتھر تو اپنے ہی پاس رہتے ہیں اور بغیر زر کاری کیے اینٹوں کی شکل میں سود بھی ملتا رہتا ہے

اس رد عمل کی ٹھوس مثال میرا یہ لسانی ردد عمل ہے

ایک گجراتی خیر خواہ نے زیرہ کو zeerah کی بجاۓ jeera لکّھا، جب ہم نے ٹوکا کہ یہ غلط ہے تو انہوں نے کہا کہ اردو میں جو ہو گجراتی میں یہی صحیح ہے.
تب جاکر ہمیں یہ احساس ہوا کہ اگر ہم زیرہ کو cumin ہی لکھتے تو یہ نوبت نہ آتی اور ہم نے ایسا کرنے کا تہیہ کرلیا. ہمارے اس طرز عمل میں مندرجہ بالا تمام پہلو صاف نظر آتے ہیں.اب جب ہم انٹرنیٹ پر کچھ لکھتے ہیں تو cumin کے قوس میں زیرہ لکھ دیتے ہیں ، اور جب ہمارا عزیز گجراتی دوست لکھتا ہے تو jeera کے قوس میں cumin لکھتا ہے.
اور چونکہ ہم یہ جان چکے ہیں کہ گجراتی میں صحیح کیا ہے تو ہم جب بھی کسی گجراتی سے مخاطب ہوں جیرا کے تلفّظ کا خاص خیال رکھتے ہیں.

Thursday, August 11, 2011

(ہٹلری اور فلسطینئی (مع زائد حمزہ کے

ہم بچپن ہی سے اپنے بڑوں سے یہ لفظ سنتے آئے ہیں اور یہ فقرہ بھی کہ وہ بہت "ہٹلری کررہا ہے" یا "اس کی ہٹلری نہیں چلےگی".
مسلمانوں میں یہ فقرہ ضد، اڑیل پن، ہٹ دھرمی وغیرہ کیلئے بڑے شوق سے استمعال ہوتا آیا ہے
یہودیوں کا ہٹلر پر دائمی اور حتمی الزام ہے کہ اس نے ان کا قتل عام کروایا
دوسری طرف مسجد اقصیٰ کا دم بھی ہم لوگ ہی بھرتے آئے ہیں
اس کا یہ مطلب ہے کہ دنیا کے تیسرے کونے میں رہنے والے جاہل مسلمان تک یہودیوں کے غم میں انجانے طور پر شریک ہیں
لیکن کسی مظلوم کو یہ نہیں کہا جاتا کہ یہ تو "تمہاری فلسطینئی ہے" یا تم تو "یہودیت کا شکار" ہو
"اور نہ ہی یہ کہ "بش ہٹلری پر آمادہ" ہے یا امریکہ بہت "ہٹلری کررہا ہے

Sunday, November 21, 2010

Eid Mubarak (SVG)

(Eid Mubarak - This is text, not an image!)

Wednesday, February 11, 2009

تعلیمی تاش

اکثر میری بات ایک پاکستانی انجینئر سے ہوتی رہتی ہے۔ یہ جناب پاکستان سے کینڈا بڑے خواب لے کرآئے تو تھے، لیکن یہاں آکر فی الحال چوکیداری کررہے ہیں۔ خیر یہ حالات کا تقاضہ ہے۔
میں ان سے بات کررہا تھا اور اسی دوران میں نے ذکر کیا کہ آجکل ذاتی طور پر میں "انٹرنیٹ تعلیمی تاش" بنانے میں مصروف ہوں۔ بات آگے بڑھی تو میں نے ان سے پوچھا کہ آیا وہ تعلیمی تاش تلاش کرنے میں میری مدد کرسکتے ہیں۔ انہوں نے عقدہ کھولا کہ وہ تعلیمی تاش کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، نہ ہی انہوں نے کبھی کھیلا ہے۔
جب میں نے پوچھا کہ کیا وہ "اِسکرَےبَل" کے بارے میں جانتے ہیں تو انہیں نے ہاں میں جواب دیا۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ سچ مچ اِس کھیل سے واقف ہیں یا نہیں۔
آنہوں نے مجھے مشورہ دیا "آپ تعلیمی تاش کے بجائے اسکرےبل کیوں نہیں کھیل لیتے"
میں نے جواب دیا "میں کھیلنا نہیں چاہتا بلکہ آپ کو کھیلتے دیکھنا چاہتا ہوں"

Sunday, September 07, 2008

ایک خیال ذرائع ابلاغ پر



غالباً یہی دو قسمیں پائی جاتی ہیں؛ اوّل زمرے میں زیادہ تر اردو اور دوسرے میں کئی انگریزی اخبارات اور جرائد آتے ہیں۔
مثلاً گجرات مُسلم کُش فسادات کے بعد سے آج تک اردو اخبارات و رسائل اس کا سوگ مناتے ہوئے ہائے ہائے کرتے آئے ہیں۔
اور انگریزی رسائل "فَورگیٹ اَینڈ فَورگِیو" کے تخت وہ حدیث دہراتے آرہے ہیں جس میں ایک عورت پیغمبرِ اسلام پر کچرا ڈالا کرتی تھی۔ اللّہ اللّہ

انصاف اگر چھینا نہیں تو کم از کم مانگا تو جاسکتا ہے!

Thursday, September 04, 2008

کھجور کی تلاش

رمضان کا پہلا روزہ تھا۔ سب کچھ تھا، لیکن کھجور نہیں۔
میں مسلم اکثریتی علاقہ میں نہیں رہتا، جہاں تمام قسم کے حلال گوشت اور کھجور جیسی چیزوں کی فراوانی ہوتی ہے۔ ان "پسماندہ" علاقوں میں قلّت صرف راستوں کی ہوتی ہے۔ نجانے کیوں مسلمان علاقوں میں یہ رجحان ہر جگہ پایا جاتا ہے کہ ہم اپنی متعیّن جگہ سے پانچ فٹ آگے مکان بڑھالیتے ہیں۔
خیر، میں جس علاقہ میں رہتا ہوں وہاں کی صغیرہ و کبیرہ دکانوں کے میں نے چکّر لگائے لیکن کہیں کھجور نہ ملی۔ یہاں جو موَل اور بیکریاں ہیں (خواہ وہ مسلمانوں کی ہوں) تہواروں کا بطورِ خاص خیال رکھتے ہیں؛ دیوالی ہو یا کرسمس۔
لیکن کھجور اور دودھ جن کا استعمال رمضان میں بڑھ جاتا ہے، ان دونوں چیزوں کی قلّت سی ہوگئی ہے۔ وجہ یہ تھی کہ دوکانداروں کو رمضان شروع ہونے کا نہ تو علم ہے نہ ہی کاروباری اہمّیت۔ علم کیوں کر ہو؛ نہ تو رمضان کے ڈھول تاشے ہوتے ہیں اور نہ ہی کوئی دھوم۔
وہ دن ہوا ہوئے جب سحری ختم ہونے کا اعلان کیا جاتا تھا۔ اب تو صبح میں شور کرنے پر پابندی کی وجہ سے اذان کب ہوتی ہے معلوم نہیں ہوتا۔ پھر جب لوگ اپنے گھروں سے مسجدوں کیلئے نکلتے ہیں تو راستے میں ملاقات صرف کتّوں سے ہوتی ہے۔ جب سے کتّوں کے مارنے پر پابندی عائد ہوئی ہے، وہ بڑے غیر ذمّہ دار ہوگئے ہیں۔ کیا ان سے کوئی توقّع کی جاسکتی ہے کہ وہ دوکانداروں کو صبح کے حال سے مطلّع کریں گے! خیر چھوڑیے ان کتّوں کو۔
لیکن جب میں اس علاقہ کی مسجد میں جاتا ہوں تو کافی لوگ ہوتے ہیں، جس سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ اس علاقہ میں کتنے "چھپے رستم" (مسلمان) رہتے ہیں۔ اس علاقہ میں کاروبار کرنے والوں کی منافع سے اس بے رُخی پر مجھے غصّہ بھی آیا اور افسوس بھی ہوا۔
خدا خدا کرکے(اِسے شرک نہ سمجھیں، خدا سے میری مراد اللّہ ہے)، ایک راجستھانی حلوائی کے یہاں کھجور ملی؛ آدھا کلو کی جدید ہوا بَند پُڑیا، جو وہ ستّر روپئے "ایم-آر-پی" میں بیچنے پر بضد تھا۔ میں گھر آنے تک یہی سوچتا رہا کہ آئندہ سال کسی ایماندار ضرورت مند کی مالی اعانت کرکے اسے ایک "رمضان المبارک" دوکان لگانے پر راضی کرونگا۔ خیر، دوسرے روز میں نے اس کھجوری "استحصال" سے بچنے اور "باایمان" ہوا میں سانس لینے کیلئے مسلم بازار کا رُخ کیا اور ٣٠٠ گرام کھجور کیلئے ساٹھ روپئے ادا کرنے کے بعد استحصال کی ایمانی حالت کا مجھے علم ہوا۔

Wednesday, August 20, 2008

لطیفہ - مغربی ذرائع ابلاغ

یہ تلخ لطیفہ مجھے بذریعہ ای-میل موصول ہوا۔ اس لئے میں ترجمہ کرنے کی زحمت نہ اٹھاتے ہوئے اسے یہاں انگریزی میں جوں کا توں پیش کررہا ہوں۔ کاش حقیقت اتنی تلخ نہ ہوتی کہ مجھے اس لطیفہ کو حذف کرنے میں کوئی پریشانی نہ ہوتی۔
احمد آباد بم دھماکوں کا ملزم، جس کے انٹرنیٹ کا استعمال کیا گیا تھا، ایک امریکی تھا اور اسے با عزّت اپنے وطن جانے دیا گیا۔ جبکہ کئی مسلمان نوجوان اسی ای میل کے طفیل سلاخوں کی زد میں ہیں۔


Western Media
A man is taking a walk in Central park in New York. Suddenly he sees a little girl being attacked by a pit bull dog. He runs over to fend off the dog. In the process he kills the dog to save the girl's life.
A reporter who by chance was walking by, comes to the scene and says: "You are a hero, tomorrow you can read it in all the newspapers: 'Brave New Yorker saves the life of little girl' ". The man says: - "But I am not a New Yorker!" "Oh ,then it will say: 'Brave American saves life of little girl' " – the reporter answers. "But I am not an American!" – says the man. "Oh, what are you then?" The man says, "I am a Saudi!".
The next day the newspapers headline reads: Islamic extremist kills dog in Central Park

Labels:

Thursday, August 07, 2008

مُحمّد علی روڈ

شہرِ بمبئی کا "مُحمّد علی روڈ"، مولانا محمّد علی جَوہر سے منسوب ہے۔ پچھلے چند مہینوں میں مجھے وہاں جانے کا اتّفاق ہوتا رہا ہے۔ دراصل کام تو مجھے "چرچ گیٹ" کے قریب کرنا ہوتا تھا، لیکن میں صبح جلدی نکل جاتا تھا اور دیر رات واپسی کا ٹکٹ بنا لیتا۔ اِس طرح مجھے ١ یا ٢ گھنٹے کے کام کے علاوہ کافی وقت خالی مِل جاتا جس میں میں اِس "کتابستان" کی مزاج پُرسی کرتا تھا۔ مزاج پرسی کیا اسے عیادت کہوں تو غیر مناسب نہ ہوگا۔
یہاں اردو کی نئی اور پرانی سبھی کتابیں ملتی ہیں؛ مذہبی اور غیر مذہبی دونوں قسم کی۔ میں نے بھی چند کتابیں خریدیں۔

میں اس سڑک پر تھا جو وکٹوریا ٹرمِنَس (وی۔ٹی) سے بھینڈی بازار کی جانب جاتی ہے۔ میں بھیڑ چیرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا لیکن میری نظر یہاں کے مسلمانوں کی علمی فہم کو پرکھنا چاہتی تھی۔
"حج ہاؤس" کے سامنے سے گذرتے ہوئے یہ خیال آیا کہ اِسے "حج مندر" کہتے تو غیر برادران کی کتنی خوشنودی پاتے! حج ہاؤس سے بے ساختہ "کَوفی ہاؤس" یاد آیا۔
آگے ایک مسجد تھی اس کے دروازے کے قریب ایک جگہ سے فون کیا۔ مسلمان دوکان دار کے ساتھ حسبِ دستور کچھ غیر ضروری احباب بیٹھے تھے اور پر زور انداز میں یہ بات زیرِ بحث تھی کہ فلاں نمبر کس علاقہ کا تھا۔ بحث اتنی پُر جوش کہ فون پر بات کرنا مشکل ہورہا تھا۔
آگے ایک درگاہ پر "پیڈرو" نام لکھا تھا۔ انگریزی میں "pedro" اور ناگری میں "पेडरू" نجانے میں یہ کیوں سوچنے لگا کہ یہ "پَید رَو" ہونا چاہئے تھا۔
مزید آگے ایک چوک تھا جہاں لکھا تھا کہ یہ کسی کیلئے "sawab-e-zariya" کی نیت سے بنی ہے۔ کسی قابل ہندوستانی انگریز مسلمان نے j کی جگہ z لکھا تھا۔ کیا وہ جاریہ اور ذریعہ کا فرق سمجھتا ہوگا!
اطراف میں مالیگاؤں کے نئے کامیاب افسر کو خراجِ تحسین پیش کرتے کئی بورڈ تھے جو کہتے "ہم انہے اس کامیابی پر مبارکباد پیش کرتے ہے" (حرام خور سارے نون غنّہ ہضم کرگیا)۔

اس سڑک کے نام میں اوّل تو "مولانا" غائب ہے دوّم مُحَمّد کو ناگری میں "महंमद" لکھا ہے یعنی مَحَنمَد۔

میں نے جو کتابیں خریدیں؛
١۔ رشید حسَن خاں کی "تفہیم"
==> مکتبہ جامعہ، نئی دہلی نے خاں صاحب کے شایانِ شان اس کی بہتریں طباعت اور جلد بندی کی ہے۔ خان صاحب کے مضامین تو غیر معیاری ہو ہی نہیں سکتے۔ کتاب کی شروعات انہوں نے مولانا آزاد کی تقریر نما تحریروں کے بدلتے رنگوں کے علمی جائزہ سے اور اختتام "ترقّیِ اردو بورڈ کراچی" کے انتہائی غیر معیاری لُغت کی دھجّیاں اڑانے پر کیا ہے۔
٢۔ مکتبہ جامعہ کے معیاری ادب سلسلہ کی "انتخابِ مضامینِ سَر سیّد"
٣۔ عنایت اللّہ التمش کی "داستان ایمان فروشوں کی"
==> یہ فرید بُک ڈِپو کی مجرمانہ کاوش کا نتیجہ ہے۔ سرورق اور متن کی طباعت میں وہی مناسبت ہے جو ایک حَسین فحاشہ کی صورت اور کردار میں ہوتی ہے۔
٤۔ "پَطرس (بُخاری) کے مضامین"
٥۔ ابنِ صفی کا "خطرناک مجرم"

Saturday, March 29, 2008

بریانی، حلیم اور پائے : مختصر تاریخ

مندرجہ ذیل اقتباس حیدر آباد کے ایک ہوٹل کے پرچہ سے ماخوذ ہے۔
[Following text is reproduced here verbatim from a sheet of paper. It is presented here with some additions inline and enclosed in brackets.]

In the olden days when the armies marched long stretches, they were to be fed in the most befittingly nutritious manner. Hence they carried with them herds of sheep, goats, rations of rice and wheat. The meat was then cooked with rice or wheat, what was cooked with rice came to be known as BIRYANI (بریانی = biryaani) and with wheat as HALEEM (حلیم = Haleem). The remnants of the lamb such as trotters, organs etc was cooked overnight and served the next morning came to be known as NAHARI/PAYA (نہاری/ پائے = nahaari/paa'ey).

The Nizam (نظام = nizaam) and other members of the royal family, such as Salar Jung (سالار جنگ = saalaar jang), Viqar-ul-Umrah (وقارالامراء = wiqaarul umraa) with unwavered dedication from the Royal cooks of the erstwhile Nizam perfected this most ordinary cooking by using expensive, special and aromatic ingredients to produce food of the highest quality of taste and nutrition, creating a perfect balance of proteins, carbohydrates etc.
The extent of care taken is evident from the fact that even the metal that is used in the cooking vessels, was predominantly copper, which helps in slow cooking, while retaining the original flavors of meats etc.

Hyderabad House (حیدرآباد ہاؤس = Haidar-aabaad house), established in 1975 by its founder Late Mir Baber Ali (میر بابر علی - مرحوم = meer baabar Ali - marhoom), continues this legacy with equal finesse, which has made it a household name among one and all in Hyderabad. It intends to promote this unique cuisine not only in the city but also to all parts of the country and abroad.