Saturday, February 09, 2008

محاورے فلموں میں

جب بھی کوئی انگریزی کتاب پڑھنے کا اتفاق ہوتا ہے تو میری محدود معلومات میں چند نئے الفاظ کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ نئی اردو کتابوں اور رسالوں کا معاملہ اسکے بالکل برعکس ہے یعنی کافی مروج الفاظ بلا وجہ متروک پاتا ہوں اور نا معقول انگریزی الفاظ کو بلا وجہ مستعمل پاتا ہوں۔ حالانکہ اردو فلمی گانوں کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہوچلا ہے، پھر بھی میں ان سے ناامید نہیں ہوں؛ لیکن وہاں بھی اردو والے نا ہنجار اور اردو بیزار ہندی والوں کا بول بال ہے جو میری امیدوں کی صحت کیلئے مضر ہے۔

فلم 'بھول بھلیاں' میں ہیرو امریکہ سے شادی کرکے آجاتا ہے جس پر لوگ ششدر رہ جاتے ہیں۔ ہیرو کا چچا اس پر کہتا ہے؛
"ارے! یہ آپ لوگ موم جیسے پگھل کیوں گئے"
فلم 'تارے زمیں پر' میں ایک گانا ہے جس میں ڈٹے رہنے کو یوں تعبیر کیا گیا ہے؛
"ٹس سے مس نہ ہونگے ہم"

نجانے کیوں مجھے یہ دونوں استعمال غلط لگتے ہیں۔
"موم جیسے پگھل جانا" مثبت اور "ٹس سے مس نہ ہونا" منفی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں لیکن یہاں وہ بالترتیب منفی اور مثبت معنوں میں استعمال کئے گئے ہیں۔

Friday, February 01, 2008

جُمعہ کا بَیان اور دُعا

آج کا بیان ایک سُنّی قسم کا شخص دے رہا تھا؛

میں اس بیان کے آخری چند جملےہی سُن سکا، جس میں قابلِ ذکر یہ فقرہ تھا؛
"اور وہی لاغر اونٹنی چلنے لگا"

نماز کے بعد دعا کچھ اس پیرائے میں "عطا فرمائی" گئی؛
٭) اللّہ ہماری کوتاہیوں کو دور عطا فرمائے۔
٭) اللّہ تمام مسلمانوں کو کامیابی نصیب عطا فرمائے۔
٭) اللّہ تمام مسلمانانِ عالم کی حفاظت عطا فرمائے۔


خدا اُن صاحب کی دعاؤں کو قبولیت سے ذیادہ تصحیح "نصیب عطا فرمائے"۔
:(