Saturday, October 14, 2006

بے ایمانی کے خلاف


گولڈن کواڈری لیٹرل (Golden Quadrilateral) پروجیکٹ میں رشوت خوری کا پردہ فاش کرنے کیلئے جب دُوبے نامی ایک پاک نفس انسان نے وزیرِ اعظم کو خط لکھا تو حشر یہ ہوا کہ اس خط کا ہی پردہ فاش کردیا گیا اور نتیجتاً دوبے کو اپنی جان گنوانی پڑی۔

maiN chup raha to mujhe maar dega mera zameer - gawaahi di to Adaalat meiN maara jaaoonga
 maiN chup raha to mujhe maar dega mera zameer 
 gawaahi di to Adaalat meiN maara jaaoonga 

کوّا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا


کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ الفاظ رومن رسم الخط میں کیسے لکھے جاتے ہیں؟
میں نے اپنی ناقص رائے قوسین میں لکھ دی ہے۔ اور ہر لفظ کے نیچے نیم مروّجہ ہجّے لکھ دیئے ہیں۔ نیم مروّجہ اسلئے کہ یہ غالباً لاپرواہی کا شکار ہیں۔

اذان (azaan)
athan adhan ezan

رمضان (ramzaan)
ramdan ramdhan ramadhan

صلوٰة (salaat)
salath salah

حدیث (hadees)
hadith

السّلامُ علیکم (assalaamu alaikum)
aslamo aleikum
aslamo alaykum
assalam alecoom

ابوظہبی (abu zahbi)
abu dhabi

مکّہ (makkah)
mecca

مدینہ (madinah)
medina

میں نے جن لوگوں سے پوچھا انہوں نے یہی کہا؛ عربی میں ث کا تلفّظ س سے قدرے مختلف ہوتا ہے۔

تو میں نے کہا
اگر ذ کیلئے th استعمال کرتے ہیں (athan) تو ث کیلئے بھی وہی کیونکر استعمال کرسکتے ہیں (hadith)؟
یہی نہیں ة کیلئے بھی یہی th استعمال ہورہا ہے!

اسی طرح
جہاں ظ کیلئے dh استعمال ہورہا ہے (abu dhabi) وہیں ض کیلئے بھی (ramdhan) اور ذ کیلئے بھی (adhan)۔


اگر عربی سے رومن میں تبدیل کرنا ہو تو کیا ہم اِس بات کا خیال نہیں رکھ سکتے کہ اُس رسم الخط میں اگر ذ ض ظ ز کیلئے مناسب ترین حرف اگر z ہی ہو تو اسکا استعمال کریں؟
اِسی طرح کیا س ص ث کیلئے s استعمال نہیں کیا جاسکتا؟
کیا ہم ف کیلئے ph کا استعمال کرتے ہیں؟
کیا ہم ه اور ح دونوں کیلئے صرف h کا استعمال نہیں کرتے!!


کیا مسلمان کوئی کام سیدھے ڈھنگ سے نہیں کرسکتے؟
اگر انگریزی کو اتنا ہی ملحوظ رکھنا ہے تو یہ لیجئے میرا جواب۔
میں hadith کو ہَڈیٹھ، athan کو اَٹھان، adhan کو اَدھان یا اَڈَھن، abu dhabi کو ابو ڈھابی، ramdhan کو رام دَھن اور mecca کو میکا پڑھتا ہوں۔

Saturday, October 07, 2006

سموسے


ہمارے یہاں سَمُوسَہ کا تلفّظ samosa کی بجائے samoosa کیا جاتا رہا ہے۔ البتّہ یہ معلوم نہیں کہ آیا یہ ہمارے یہاں کا خاصّہ تھا یا یہی صحیح تلفّظ ہے۔ دوسری اہم بات یہ کہ ہمارے یہاں سموسے سے مراد گوشت کا قیمہ بھرے سموسے لی جاتی تھی چونکہ آلو وغیرہ بھرے سموسے ہمارے یہاں بنتے نہیں تھے۔
خیر مجھے بچپن ہی سے سموسے بہت پسند رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنی والدہ سے ان کی ترکیب سن کر لکھ رکھی ہے۔ آج افطار میں ایک دوست مدعو تھے، سوچا انہیں اپنے ہاتھ کے بنے سموسے چکھاؤں۔

ترکیب جو میں نے اردو میں لکھ رکھی ہے، ملاحظہ ہو؛

اجزاء
٢ پیاز، ١ پاؤ گوشت کا قیمہ، مونگ پھلی یا سورج مکھی کا تیل، ٹِھیسَہ، پسی ہوئی ہلدی، پسا ہوا دھنیہ، نمک، سَمار اور مَیدہ

تشریح
سَمار: ہرا دَھنیہ ہمارے یہاں سمار کہلاتا ہے۔
ٹھیسہ: تازی ہری مرچیں، لہسن کی چند کونپلیں، معمولی مقدار میں زیرہ اور سمار کو جب ٹھیس (یعنی پیس) لیا جاتا ہے تو وہ ٹھیسہ کہلاتا ہے۔

احتیاط
پیاز چوکور/چوکون( یعنی مربع نما) کاٹ لیں، خیال رہے کہ اتنی باریک نہ ہو کہ پکنے میں مرجائے۔
گوشت کا قیمہ مِکسر میں نہ بنائیں بلکہ قصاب کی چُھری یا مشین سے کروائیں۔

ترکیب
تیل گرم کرکے اسمیں پیاز بھونیں، لیکن سرخ نہ ہونے دیں۔ پیاز جوں ہی نرم ہونے لگے اسمیں ٹھیسہ شامل کرلیں اور بھونیں۔ اب پسی ہلدی اور پسا دھنیہ بھی مناسب مقدار میں بھوننے میں شامل کرلیں۔
پھر اسمیں قیمہ اور اس پر نمک ڈال کر چمچے سے ہلاتے ہوئے بھوننا جاری رکھیں۔ اب اس آمیزہ کو ڈھانک کر قیمہ گلنے تک (قریباً دس منٹ) پکنے دیں۔ اب سمار کاٹ کر اس میں ڈالیں اور ڈھانک کر مزید پانچ منٹ پکالیں۔ لیجئے لذیذ سموسوں کا پیش خیمہ یعنی قیمہ تیار ہے۔

اب میدہ میں حسبِ ذائقہ نمک ملاکر سخت گوندھ لیں۔ پھر اسکی نہایت پَتلی روٹیاں بِیل کر چاقو سے ہر روٹی کو چار مثلّث نما(pie) حصّوں میں (دائرہ کے قُطر کے مساوی دو خطوط جب ایک دوسرے کو دائرہ کے مرکز پر زاویہ قائمہ بناتے ہوئے قطع کرتے ہیں تو یہی ہوتا ہے) کاٹ لیں۔ ہر حصّے سے ایک سموسہ تیار ہوگا۔ اب ہر حصّے پر اوپر تیار کردہ قیمہ ٢ یا ٣ چمچے رکھ کر ایک خاص ترتیب سے تہہ کرلیں۔ لیجئے ادھ پکے سموسے تیار ہیں۔

اب کڑھائی میں تیل گرم کرکے اسمیں تین تین یا چار چار سموسے بیک وقت تلیں۔ آنچ دھیمی ہو تو سموسے تیل پیتے ہیں، آنچ تیز ہو تو اوپر سے جلنے لگتے ہیں اور اندر کچّے رہ جاتے ہیں، اسلئے میانہ روی لازمی ہے۔

افطار کا وقت ہوچلا ہے، یہ سموسے کھجور کے ساتھ بڑی لذّت دیں گے۔

Thursday, October 05, 2006

زندگی اتّفاق ہے

چونکہ میں افطار کی غرض سے کب کا فرار ہوچکا تھا اسلئے دوسرے روز صبح میں نے نمبر دیکھا تو یہ پہچاننے میں وقت نہیں لگا کہ یہ ٹیلی فون نمبر میرے وطن کا ہی ہے۔ اپنے آبائی وطن میں ہمیں جو صورت سے نہ پہچانے وہ نام ضرور جانتا ہے۔ میں نے واپس فون کرکے اپنا تعارف کرایا اور بتایا کہ مجھے کل اپنی غیر حاضری میں آپکے نمبر سے فون آیا تھا لیکن میں بظاہر آپ کو نہیں جانتا۔ انہوں نے جواباً اپنی تعریف بیان کی تو وہ نمبر ہمارے ان دوست کا نکلا، جنہیں میرے توسّط سے میری ہی شراکہ میں اسی ہفتہ ملازمت ملی ہے۔ گشتی فون کی کثرت کی بدولت میں ان کے گھر کا نمبر نہیں جانتا تھا۔

کمپنی میں میرا ٹیلی فون نمبر ہے 7112 اور ان دوست کا 7129۔ باہر سے براہِ راست گفتگو کرنے کیلئے اِس نمبر سے پیشتر چند ہندسے جوڑنے ہوتے ہیں۔ لہٰذا کسی انسان کا دخل نہیں ہوتا۔ ہوا یوں کہ جب انہوں نے اپنے والد کو اپنا نمبر دیا تو انکے والد نے غلطی سے 7129 کی بجائے 71129 لکھ لیا۔ اور جب ان کے والد نے بات کرنی چاہی تو نمبر میرے یہاں کا لگ گیا۔

غلطی ایسے ہندسے کی ہونا کہ وہ نمبر غلط ہونے کے باوجود کارآمد رہے اور ایسے شخص کو فون لگنا جو اس نمبر کو قدرے پہچانے اور تصدیق کرکے پیغام صحیح شخص تک پہنچائے، یہ اتّفاق اچّھا لگا۔

Monday, October 02, 2006

تسبیح شکن ذاکر

زبیر احمد صاحب کی جانب سے یہ شعر بصورت ِ پیغام ِ مختصر (ایس ایم ایس) وارد ہوا۔