Tuesday, August 29, 2006

zabaane-hind hai urdu



shaa'er: manzar bhopali

Friday, August 25, 2006

ایک شعر


مجھے علم نہیں کہ یہ شعر کس کا ہے۔ لیکن صبح ریڈیو پر بکواس کے ساتھ ساتھ اچانک یہ شعر سنا تو سوچا یاددہانی کیلئے محفوظ کرلوں:

marham na mila, mar ham to gaey | hamdam na mila, ham dam se gaey

Thursday, August 17, 2006

بیت بازی


بَیت ایک عربی لفظ ہے جسکے معنی ہیں گھر۔ اردو میں بھی بیت المال، بیت الخلا وغیرہ عربی فقرے مروّج ہیں۔ لیکن عربی میں شعر کو بھی بیت کہا جاتا ہے۔ اسی نسبت سے اردو میں شعری مقابلہ کو "بیت بازی" کہا جاتا تھا۔

ہند کی(یعنی ہندی) فلموں میں "نغمہ بازی" کا رُجحان ظہور پذیر ہوا، جسے "اَنتاکشَری" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ فقرہ دو الفاظ، "اَنت" بمعنی "آخر" اور "اکشَر" بمعنی "حرف" کا مرکّب ہے۔

ہماری باجیاں جس طرز پہ بیت بازی کرتی تھیں وہ فلمی انتاکشری سے ابتر تھا۔
اُن کی بیت بازی کچھ یوں کھیلی جاتی تھی؛
آغاز الف سے شروع ہونے والے شعر سے ہوتا تھا، مثلاً
ایک پتّھر کی بھی تقدیر سنور سکتی ہے = شرط یہ ہے کہ سلیقے سے تراشا جائے
اس کے جواب میں مخالف جماعت کو شعر کےآخری حرف یعنی ي سے شروع ہونے والا شعر کہنا ہوتا تھا، مثلاً
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا = ...................تا
یہ شعر الف پر ختم ہوتا ہے اسلئے مخالف جماعت الف سے شعر کہے گی۔

اوپر کی مثالوں کے برعکس انتاکشری میں "جائے" پر اختتام کا جواب حرف "ئے" سے دیا جائے گا۔ اسی طرح "ہوتا" پر اختتام کا جواب "ت" سے شروع ہونے والے شعر سے دیا جائے گا۔
لہٰذا انتاکشری دراصل انتاکشری نہیں ہوتی چونکہ اخیر (انَت) سے پہلے کا حرف(اکشَر) استعمال کیا جاتا ہے۔

مجھے بیت بازی کے مقابلے انتاکشری کے اصول آسان اور مفید لگتے ہیں۔ یہ بات اور ہے کہ شعر کا جواب شعر سے دینے کا نام بیت بازی بنسبت انتاکشری زیادہ موزوں ہے۔

Thursday, August 10, 2006

کیا خوب کہا ہے



aik patthar ki bhi taqdeer saNwar sakti hai
shart yeh hai keh saleeqe se taraasha jaa'ey

Tuesday, August 08, 2006

مسلم اکثریتی ماحول

احمد امام صاحب پیشے سے ایک معلّم ہیں اور ایک اردو مدرسہ میں تدریس کا کام انجام دیتے ہیں۔ احمد صاحب ہندوستان میں مہاراشٹر کے ایک ایسے مسلم اکثریتی قصبہ سے تعلّق رکھتے ہیں، جہاں آج بھی خاندانی پیشواؤں کا سکّہ چلتا ہے، جسے شاعر نے "وضعداری" کا نام دیا ہے۔ تدریس کے اِس کام میں سیاست داں مسلمانوں کا ذیادہ خطرہ رہتا ہے جو بغاوت کو دبانے میں کسی ستم سے پرہیز نہیں کرتے۔ ماہر ونگرانِ تعلیم سے ذیادہ قصبہ کے صدر صاحب کے مزاج کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ مقامی اخبارات کو جو شکایات بھیجی جاتی ہیں وہ صدر صاحب کے "آشیر باد" کی تاب نہ لاکر اکثر دم توڑ دیتی ہیں۔ مقامی اردو اسکولوں میں تدریس کا معمولی پیشہ اپنانے کیلئے لاکھوں کی رشوت (عطیہ) دینا ہوتا ہے۔

Saturday, August 05, 2006

اردو دنیا

اردو دنیا ایک اردو ویب سائٹ ہے جس کے صفحۂ اوّل پر یہ پُر زور اور واضح پیغام ہے:




یہی پیغام میری دانست میں مناسب حرکات و سکنات کے اضافہ کے ساتھ

آپ اِس کو کیا کہیں گے کہ لوگ بولتے ہیں اردو، کہتے ہیں ہندی بول رہے ہیں۔
فلم دیکھتے ہیں اردو زبان میں، کہتے ہیں ہندی فلم۔
جب گفتگو ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ بھئ آپ تو ہندی بول رہے ہیں۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ اردو بول رہے ہیں۔
یہ کتنا بڑا المیہ ہے! ایک سازش کے تحت اردو کو کس طرح لوگوں کے دل و دماغ سے مَحو کیا جارہا ہے۔
ایسے حالات میں ضرورت ہے کہ اردو والے اپنی زبان اور تہذیب کو اشعار و گفتار سے لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کریں۔



میری ذاتی رائے میں اس سازش کا سب سے بڑا حصّہ ہندوستانی مسلمان ہیں۔


علاوہ ازیں...

The News Age - Powered by UrduNet

Thursday, August 03, 2006

اردو بلاگران

بدتمیز، شعیب صفدر، جہانزیب، بدتمیزیاں، عتیق الرحمٰن، میرا پاکستان اور محترم اجمل صاحبان
السلام علیکم و رحمتہ اللّہ و برکاتہ و مغفرتہ!

پہلے تو یہ کہ میرا بلاگ چھوڑنے کا خیال صرف ایک خیال تھا، جو حالات کے تحت جھلّاہٹ کا نتیجہ تھا نہ کہ ایک حتمی فیصلہ۔
میرے بلاگ کے یہ مقاصد ہیں؛
اِس دَور میں اردو کی گراوٹ کو قلمبند کرنا اور میری زبان کی تصحیح و فروغ میرے اوّلین مقاصد ہیں۔
اردو داں طبقہ سے گفتگو جس کا سب سے بڑا حصّہ پاکستانی ہیں، اور سرحد پار کی حالیہ تہذیب اردو کے آئینے میں دیکھنا بھی مقاصد میں شامل ہیں۔



یہی وجہ ہے کہ میں صرف اردو پر زور آزمائی کرتا ہوں نہ کہ ہندی و پاکی پر۔ میں اردو کی خاطر ان معاملات کو بالائے طاق رکھتا ہوں۔ لیکن یہ بھرم بھی ٹوٹنا تھا جب وہی زہر اردو بلاگوں میں پھیلنے لگا جس نے اردو کو اپنے ہی گھر میں بیگانہ کردیا ہے۔ مجھے اپنا مقصد فوت ہوتے نظر آیا۔ مجھے یہ بھی نظر آیا تھا کہ مسلمان ساتھ آکر صرف ایک دوسرے سے جھگڑ سکتے ہیں۔

آپ لوگوں کی چاہت دیکھ کر دل بھر آیا کہ اردو اور خیالات نے کس طرح ہمیں سرحد پار بھی باندھ رکھّا ہے۔

باتمیز صاحب نے مجھے اعتدال پسند بلاکر ایک ذمہ داری سونپ دی۔ آج کل روشن خیال، انتہا پسند اور اعتدال پسند سارے الفاظ اپنے معنی کھورہے ہیں۔
شعیب صفدر صاحب نے بڑی اپنائیت سے صبر کی تلقین کی۔
جہانزیب صاحب نے بھی بلا تعصّب حلال و بلاگ جاری رکھنے کی رائے دی۔
بدتمیزیاں والے صاحب نے اپنی صفائی پیش کی کہ ہندوپاک کو کھدیڑنے کی پہل دوسری جانب سے ہوئی تھی اور میں بھی ان سے اتفاق کرتا ہوں۔ لیکن... جناب والا، خدا پر بکواس لکھنا مَیں اِس سلسلے کی پہلی کڑی نہیں سمجھتا کیونکہ بلاگ کا مالک جو چاہے وہ لکھے۔ وہ خدا کے حضور چاہے جتنی گستاخی کرے ہمیں اس پر مشتعل نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ خدا اور اس کا ذاتی معاملہ ہے۔ انسان کی سرکشی کو خدا کی بے بسی نہیں کہا جاسکتا۔
مجھے بھی ان تحاریر سے تکلیف ہوتی ہے لیکن اسلئے نہیں کہ وہ خدا پر ہیں؛ کیونکہ انسان اگر اپنے خالق کو گالی بھی دے تو اس کی بساط وہی ایک مخلوق کی ہوتی ہے۔ مجھے تکلیف اس ذیادتی کی ہوتی ہے کہ کوئی روشن خیال بننے کیلئے ناحق مسلمانوں کو گالی دے، لیکن حق پر لتاڑے بھی تو کوئی مضائقہ نہیں۔ مجھے خوشی ہوگی کہ وہ اپنے زور ِ قلم سے داد لیں۔ لیکن اس سب کے باوجود انہیں اور خالق کو آپس میں نمٹنے دیں اور کوئی نہ الجھے یہی میری حقیر رائے میں درست ہوگا۔ میرا ردّعمل تو یہی تھا کہ میں نے قطع تبصرہ کرلیا ۔
عتیق الرحمٰن صاحب؛ میں آپ کا ردِّ عمل سمجھ سکتا ہوں۔ میرا مقصد و مطلب معافی نہیں تھا۔ یہ تو آپ اور نبیل صاحب کی اعلٰی ظرفی ہے کہ آپ لوگوں نے وضاحت کی زحمت کی۔
میرا پاکستان صاحب نے اردو ترویج کا حوالہ دیا؛ جناب ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ اردو، انسانیت و راہِ راست کی خاطر۔ میں آپ حضرات سے اردو سیکھنے آیا ہوں، کیونکہ میری کتابی معلومات کافی نہیں تھی۔
اجمل صاحب نے اپنی رائے سے نوازا، اور بزدلی سے بچنے کی یہ کہہ کر تلقین کی؛
نشہ پِلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے -- مزا تو تب ہے گرتے کو تھام لے ساقی
جناب والا، نشہ سے کیا ڈر تھا، لیکن یہاں معاملہ زہر کا ہے۔ کاش ہم میں بھی آپ جیسا صبر و تحمّل ہوتا!

میرے ضمیر کی عدالت بھی اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ کسی کا مقصد ایک دوسرے کی قومیت کو گالی دینا نہیں تھا، لیکن اس سے بچنے میں کچھ لوگ ناکام رہے۔ لہٰذا ہمیں اس قسم کی خرافات سے بچتے رہنا اور اسی کی تلقین کرنا چاہئے۔ ہم اردو بلاگران اسی وقت کامیاب ہوسکتے ہیں۔

... Paragraph Deleted ...


پاکستانی اور مسلمان بھائیوں کیلئے پیغام؛
علّامہ اقبال کے دادا ایک کشمیری پنڈت تھے اور وہ خود حکیم الامّت! عام ہندوستانی غیر-مسلم ہم مسلمانوں سے بغض و نفرت نہیں رکھتے صرف ذرائع ابلاغ اور قومیت ذدہ لوگوں کے مہیّا کردہ خیالی مسلم خاکہ سے نفرت کرتے ہیں۔ افسوس کہ مسلمانوں کی تھوڑی سی زبانی لاپرواہی اور اُن لوگوں کا شک اِس خاکہ میں روح پھونک دیتے ہیں۔

اردو بلاگر حضرات ایک ہیں؛ صرف سرحد حائل ہے۔ انسان ایک ہیں، صرف نفرت حائل ہے