اردو بلاگران
السلام علیکم و رحمتہ اللّہ و برکاتہ و مغفرتہ!
پہلے تو یہ کہ میرا بلاگ چھوڑنے کا خیال صرف ایک خیال تھا، جو حالات کے تحت جھلّاہٹ کا نتیجہ تھا نہ کہ ایک حتمی فیصلہ۔
میرے بلاگ کے یہ مقاصد ہیں؛
اِس دَور میں اردو کی گراوٹ کو قلمبند کرنا اور میری زبان کی تصحیح و فروغ میرے اوّلین مقاصد ہیں۔
اردو داں طبقہ سے گفتگو جس کا سب سے بڑا حصّہ پاکستانی ہیں، اور سرحد پار کی حالیہ تہذیب اردو کے آئینے میں دیکھنا بھی مقاصد میں شامل ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ میں صرف اردو پر زور آزمائی کرتا ہوں نہ کہ ہندی و پاکی پر۔ میں اردو کی خاطر ان معاملات کو بالائے طاق رکھتا ہوں۔ لیکن یہ بھرم بھی ٹوٹنا تھا جب وہی زہر اردو بلاگوں میں پھیلنے لگا جس نے اردو کو اپنے ہی گھر میں بیگانہ کردیا ہے۔ مجھے اپنا مقصد فوت ہوتے نظر آیا۔ مجھے یہ بھی نظر آیا تھا کہ مسلمان ساتھ آکر صرف ایک دوسرے سے جھگڑ سکتے ہیں۔
آپ لوگوں کی چاہت دیکھ کر دل بھر آیا کہ اردو اور خیالات نے کس طرح ہمیں سرحد پار بھی باندھ رکھّا ہے۔
باتمیز صاحب نے مجھے اعتدال پسند بلاکر ایک ذمہ داری سونپ دی۔ آج کل روشن خیال، انتہا پسند اور اعتدال پسند سارے الفاظ اپنے معنی کھورہے ہیں۔
شعیب صفدر صاحب نے بڑی اپنائیت سے صبر کی تلقین کی۔
جہانزیب صاحب نے بھی بلا تعصّب حلال و بلاگ جاری رکھنے کی رائے دی۔
بدتمیزیاں والے صاحب نے اپنی صفائی پیش کی کہ ہندوپاک کو کھدیڑنے کی پہل دوسری جانب سے ہوئی تھی اور میں بھی ان سے اتفاق کرتا ہوں۔ لیکن... جناب والا، خدا پر بکواس لکھنا مَیں اِس سلسلے کی پہلی کڑی نہیں سمجھتا کیونکہ بلاگ کا مالک جو چاہے وہ لکھے۔ وہ خدا کے حضور چاہے جتنی گستاخی کرے ہمیں اس پر مشتعل نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ خدا اور اس کا ذاتی معاملہ ہے۔ انسان کی سرکشی کو خدا کی بے بسی نہیں کہا جاسکتا۔
مجھے بھی ان تحاریر سے تکلیف ہوتی ہے لیکن اسلئے نہیں کہ وہ خدا پر ہیں؛ کیونکہ انسان اگر اپنے خالق کو گالی بھی دے تو اس کی بساط وہی ایک مخلوق کی ہوتی ہے۔ مجھے تکلیف اس ذیادتی کی ہوتی ہے کہ کوئی روشن خیال بننے کیلئے ناحق مسلمانوں کو گالی دے، لیکن حق پر لتاڑے بھی تو کوئی مضائقہ نہیں۔ مجھے خوشی ہوگی کہ وہ اپنے زور ِ قلم سے داد لیں۔ لیکن اس سب کے باوجود انہیں اور خالق کو آپس میں نمٹنے دیں اور کوئی نہ الجھے یہی میری حقیر رائے میں درست ہوگا۔ میرا ردّعمل تو یہی تھا کہ میں نے قطع تبصرہ کرلیا ۔
عتیق الرحمٰن صاحب؛ میں آپ کا ردِّ عمل سمجھ سکتا ہوں۔ میرا مقصد و مطلب معافی نہیں تھا۔ یہ تو آپ اور نبیل صاحب کی اعلٰی ظرفی ہے کہ آپ لوگوں نے وضاحت کی زحمت کی۔
میرا پاکستان صاحب نے اردو ترویج کا حوالہ دیا؛ جناب ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ اردو، انسانیت و راہِ راست کی خاطر۔ میں آپ حضرات سے اردو سیکھنے آیا ہوں، کیونکہ میری کتابی معلومات کافی نہیں تھی۔
اجمل صاحب نے اپنی رائے سے نوازا، اور بزدلی سے بچنے کی یہ کہہ کر تلقین کی؛
نشہ پِلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے -- مزا تو تب ہے گرتے کو تھام لے ساقی
جناب والا، نشہ سے کیا ڈر تھا، لیکن یہاں معاملہ زہر کا ہے۔ کاش ہم میں بھی آپ جیسا صبر و تحمّل ہوتا!
میرے ضمیر کی عدالت بھی اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ کسی کا مقصد ایک دوسرے کی قومیت کو گالی دینا نہیں تھا، لیکن اس سے بچنے میں کچھ لوگ ناکام رہے۔ لہٰذا ہمیں اس قسم کی خرافات سے بچتے رہنا اور اسی کی تلقین کرنا چاہئے۔ ہم اردو بلاگران اسی وقت کامیاب ہوسکتے ہیں۔
... Paragraph Deleted ...
پاکستانی اور مسلمان بھائیوں کیلئے پیغام؛
علّامہ اقبال کے دادا ایک کشمیری پنڈت تھے اور وہ خود حکیم الامّت! عام ہندوستانی غیر-مسلم ہم مسلمانوں سے بغض و نفرت نہیں رکھتے صرف ذرائع ابلاغ اور قومیت ذدہ لوگوں کے مہیّا کردہ خیالی مسلم خاکہ سے نفرت کرتے ہیں۔ افسوس کہ مسلمانوں کی تھوڑی سی زبانی لاپرواہی اور اُن لوگوں کا شک اِس خاکہ میں روح پھونک دیتے ہیں۔
اردو بلاگر حضرات ایک ہیں؛ صرف سرحد حائل ہے۔ انسان ایک ہیں، صرف نفرت حائل ہے
1 Comments:
سلام۔
خوشی ہوئی کہ آپ نے واقعی اعتدال سے کام لیا۔ اور سبھی کو جانچا بھی۔
میں نے کبھی بھی خصوصا ہندعستانی مسلمانوں کو کچھ نہیں کہا ہے۔ لیکن اس میں بھی ایک کہانی ہے میں اپنے بلاگ پر اسے لکھوں گا تو آپ کو اصلیت معلوم پڑ جائے گی۔
ایک بار کسی ہندوستانی مزار کی انتظامیہ کے صاحب نے کہا تھا کے ہم میں اور آپ (پاکستانیوں) میں کوئی سرحد نہیں۔ ۔ اور میں بھی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں۔
اصل میں آپ نے ٹھیک لکھا شعیب کی بات کو اتنی اہمیت نہیں دینی چاہیے تھی لیکن کیا کروں طبیعت ایسی ہے کہ مذہب اور ملک پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔۔
انشاء اللہ ہم اردو کی ترویج کریں گے کیونکہ بڑے حصے میں یہ پاکستانیوں کو ملی ہے اور خصوصا انہی پر اس کی زمہ داریاں بھی ہیں اس کے باوجود آپ کو بھی ہمارا ساتھ دیتے رہنا ہے۔
اردو بلاگران ایک ہیں
Post a Comment
Subscribe to Post Comments [Atom]
<< Home