Wednesday, August 20, 2008

لطیفہ - مغربی ذرائع ابلاغ

یہ تلخ لطیفہ مجھے بذریعہ ای-میل موصول ہوا۔ اس لئے میں ترجمہ کرنے کی زحمت نہ اٹھاتے ہوئے اسے یہاں انگریزی میں جوں کا توں پیش کررہا ہوں۔ کاش حقیقت اتنی تلخ نہ ہوتی کہ مجھے اس لطیفہ کو حذف کرنے میں کوئی پریشانی نہ ہوتی۔
احمد آباد بم دھماکوں کا ملزم، جس کے انٹرنیٹ کا استعمال کیا گیا تھا، ایک امریکی تھا اور اسے با عزّت اپنے وطن جانے دیا گیا۔ جبکہ کئی مسلمان نوجوان اسی ای میل کے طفیل سلاخوں کی زد میں ہیں۔


Western Media
A man is taking a walk in Central park in New York. Suddenly he sees a little girl being attacked by a pit bull dog. He runs over to fend off the dog. In the process he kills the dog to save the girl's life.
A reporter who by chance was walking by, comes to the scene and says: "You are a hero, tomorrow you can read it in all the newspapers: 'Brave New Yorker saves the life of little girl' ". The man says: - "But I am not a New Yorker!" "Oh ,then it will say: 'Brave American saves life of little girl' " – the reporter answers. "But I am not an American!" – says the man. "Oh, what are you then?" The man says, "I am a Saudi!".
The next day the newspapers headline reads: Islamic extremist kills dog in Central Park

Labels:

Thursday, August 07, 2008

مُحمّد علی روڈ

شہرِ بمبئی کا "مُحمّد علی روڈ"، مولانا محمّد علی جَوہر سے منسوب ہے۔ پچھلے چند مہینوں میں مجھے وہاں جانے کا اتّفاق ہوتا رہا ہے۔ دراصل کام تو مجھے "چرچ گیٹ" کے قریب کرنا ہوتا تھا، لیکن میں صبح جلدی نکل جاتا تھا اور دیر رات واپسی کا ٹکٹ بنا لیتا۔ اِس طرح مجھے ١ یا ٢ گھنٹے کے کام کے علاوہ کافی وقت خالی مِل جاتا جس میں میں اِس "کتابستان" کی مزاج پُرسی کرتا تھا۔ مزاج پرسی کیا اسے عیادت کہوں تو غیر مناسب نہ ہوگا۔
یہاں اردو کی نئی اور پرانی سبھی کتابیں ملتی ہیں؛ مذہبی اور غیر مذہبی دونوں قسم کی۔ میں نے بھی چند کتابیں خریدیں۔

میں اس سڑک پر تھا جو وکٹوریا ٹرمِنَس (وی۔ٹی) سے بھینڈی بازار کی جانب جاتی ہے۔ میں بھیڑ چیرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا لیکن میری نظر یہاں کے مسلمانوں کی علمی فہم کو پرکھنا چاہتی تھی۔
"حج ہاؤس" کے سامنے سے گذرتے ہوئے یہ خیال آیا کہ اِسے "حج مندر" کہتے تو غیر برادران کی کتنی خوشنودی پاتے! حج ہاؤس سے بے ساختہ "کَوفی ہاؤس" یاد آیا۔
آگے ایک مسجد تھی اس کے دروازے کے قریب ایک جگہ سے فون کیا۔ مسلمان دوکان دار کے ساتھ حسبِ دستور کچھ غیر ضروری احباب بیٹھے تھے اور پر زور انداز میں یہ بات زیرِ بحث تھی کہ فلاں نمبر کس علاقہ کا تھا۔ بحث اتنی پُر جوش کہ فون پر بات کرنا مشکل ہورہا تھا۔
آگے ایک درگاہ پر "پیڈرو" نام لکھا تھا۔ انگریزی میں "pedro" اور ناگری میں "पेडरू" نجانے میں یہ کیوں سوچنے لگا کہ یہ "پَید رَو" ہونا چاہئے تھا۔
مزید آگے ایک چوک تھا جہاں لکھا تھا کہ یہ کسی کیلئے "sawab-e-zariya" کی نیت سے بنی ہے۔ کسی قابل ہندوستانی انگریز مسلمان نے j کی جگہ z لکھا تھا۔ کیا وہ جاریہ اور ذریعہ کا فرق سمجھتا ہوگا!
اطراف میں مالیگاؤں کے نئے کامیاب افسر کو خراجِ تحسین پیش کرتے کئی بورڈ تھے جو کہتے "ہم انہے اس کامیابی پر مبارکباد پیش کرتے ہے" (حرام خور سارے نون غنّہ ہضم کرگیا)۔

اس سڑک کے نام میں اوّل تو "مولانا" غائب ہے دوّم مُحَمّد کو ناگری میں "महंमद" لکھا ہے یعنی مَحَنمَد۔

میں نے جو کتابیں خریدیں؛
١۔ رشید حسَن خاں کی "تفہیم"
==> مکتبہ جامعہ، نئی دہلی نے خاں صاحب کے شایانِ شان اس کی بہتریں طباعت اور جلد بندی کی ہے۔ خان صاحب کے مضامین تو غیر معیاری ہو ہی نہیں سکتے۔ کتاب کی شروعات انہوں نے مولانا آزاد کی تقریر نما تحریروں کے بدلتے رنگوں کے علمی جائزہ سے اور اختتام "ترقّیِ اردو بورڈ کراچی" کے انتہائی غیر معیاری لُغت کی دھجّیاں اڑانے پر کیا ہے۔
٢۔ مکتبہ جامعہ کے معیاری ادب سلسلہ کی "انتخابِ مضامینِ سَر سیّد"
٣۔ عنایت اللّہ التمش کی "داستان ایمان فروشوں کی"
==> یہ فرید بُک ڈِپو کی مجرمانہ کاوش کا نتیجہ ہے۔ سرورق اور متن کی طباعت میں وہی مناسبت ہے جو ایک حَسین فحاشہ کی صورت اور کردار میں ہوتی ہے۔
٤۔ "پَطرس (بُخاری) کے مضامین"
٥۔ ابنِ صفی کا "خطرناک مجرم"