Sunday, September 07, 2008

ایک خیال ذرائع ابلاغ پر



غالباً یہی دو قسمیں پائی جاتی ہیں؛ اوّل زمرے میں زیادہ تر اردو اور دوسرے میں کئی انگریزی اخبارات اور جرائد آتے ہیں۔
مثلاً گجرات مُسلم کُش فسادات کے بعد سے آج تک اردو اخبارات و رسائل اس کا سوگ مناتے ہوئے ہائے ہائے کرتے آئے ہیں۔
اور انگریزی رسائل "فَورگیٹ اَینڈ فَورگِیو" کے تخت وہ حدیث دہراتے آرہے ہیں جس میں ایک عورت پیغمبرِ اسلام پر کچرا ڈالا کرتی تھی۔ اللّہ اللّہ

انصاف اگر چھینا نہیں تو کم از کم مانگا تو جاسکتا ہے!

Thursday, September 04, 2008

کھجور کی تلاش

رمضان کا پہلا روزہ تھا۔ سب کچھ تھا، لیکن کھجور نہیں۔
میں مسلم اکثریتی علاقہ میں نہیں رہتا، جہاں تمام قسم کے حلال گوشت اور کھجور جیسی چیزوں کی فراوانی ہوتی ہے۔ ان "پسماندہ" علاقوں میں قلّت صرف راستوں کی ہوتی ہے۔ نجانے کیوں مسلمان علاقوں میں یہ رجحان ہر جگہ پایا جاتا ہے کہ ہم اپنی متعیّن جگہ سے پانچ فٹ آگے مکان بڑھالیتے ہیں۔
خیر، میں جس علاقہ میں رہتا ہوں وہاں کی صغیرہ و کبیرہ دکانوں کے میں نے چکّر لگائے لیکن کہیں کھجور نہ ملی۔ یہاں جو موَل اور بیکریاں ہیں (خواہ وہ مسلمانوں کی ہوں) تہواروں کا بطورِ خاص خیال رکھتے ہیں؛ دیوالی ہو یا کرسمس۔
لیکن کھجور اور دودھ جن کا استعمال رمضان میں بڑھ جاتا ہے، ان دونوں چیزوں کی قلّت سی ہوگئی ہے۔ وجہ یہ تھی کہ دوکانداروں کو رمضان شروع ہونے کا نہ تو علم ہے نہ ہی کاروباری اہمّیت۔ علم کیوں کر ہو؛ نہ تو رمضان کے ڈھول تاشے ہوتے ہیں اور نہ ہی کوئی دھوم۔
وہ دن ہوا ہوئے جب سحری ختم ہونے کا اعلان کیا جاتا تھا۔ اب تو صبح میں شور کرنے پر پابندی کی وجہ سے اذان کب ہوتی ہے معلوم نہیں ہوتا۔ پھر جب لوگ اپنے گھروں سے مسجدوں کیلئے نکلتے ہیں تو راستے میں ملاقات صرف کتّوں سے ہوتی ہے۔ جب سے کتّوں کے مارنے پر پابندی عائد ہوئی ہے، وہ بڑے غیر ذمّہ دار ہوگئے ہیں۔ کیا ان سے کوئی توقّع کی جاسکتی ہے کہ وہ دوکانداروں کو صبح کے حال سے مطلّع کریں گے! خیر چھوڑیے ان کتّوں کو۔
لیکن جب میں اس علاقہ کی مسجد میں جاتا ہوں تو کافی لوگ ہوتے ہیں، جس سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ اس علاقہ میں کتنے "چھپے رستم" (مسلمان) رہتے ہیں۔ اس علاقہ میں کاروبار کرنے والوں کی منافع سے اس بے رُخی پر مجھے غصّہ بھی آیا اور افسوس بھی ہوا۔
خدا خدا کرکے(اِسے شرک نہ سمجھیں، خدا سے میری مراد اللّہ ہے)، ایک راجستھانی حلوائی کے یہاں کھجور ملی؛ آدھا کلو کی جدید ہوا بَند پُڑیا، جو وہ ستّر روپئے "ایم-آر-پی" میں بیچنے پر بضد تھا۔ میں گھر آنے تک یہی سوچتا رہا کہ آئندہ سال کسی ایماندار ضرورت مند کی مالی اعانت کرکے اسے ایک "رمضان المبارک" دوکان لگانے پر راضی کرونگا۔ خیر، دوسرے روز میں نے اس کھجوری "استحصال" سے بچنے اور "باایمان" ہوا میں سانس لینے کیلئے مسلم بازار کا رُخ کیا اور ٣٠٠ گرام کھجور کیلئے ساٹھ روپئے ادا کرنے کے بعد استحصال کی ایمانی حالت کا مجھے علم ہوا۔