Monday, November 28, 2005

ذمّہ داری

آج میں تمام اردو بَلَوگَرُوں [بَلا گَروں؟ :)] سے مخاطب ھوں۔ بات دراصل یہ ھیکہ ھماری اردو نہ صرف انحطاط پزیر ھے بلکہ یہ گرانقدر تحفہ اب گراں لگنے لگا ھے۔ وجہ اس زباں کی زبوں حالی ھے۔ میری آپ لوگوں سے مؤدبانہ گذارش (اَپِیل) ھیکہ آپ اس پر سنجیدگی سے سوچیں۔

(کسی کی دل آزاری مقصود نہیں، اگر ھوجائے تو پیشگی معذرت)

مسئلہ کیا ھے؟
مسئلہ دراصل یہ ھیکہ اب اردو میں ناجائز ملاوٹ کے ساتھ ساتھ اسکے اجزائے ترکیبی میں بھی گراوٹ آنے لگی ھے۔

مثلاً عام سے فی الحال کو کسی نے فلہال لکھ دیا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ھیکہ ھم نے یہ لفظ صرف سن رکھا ھے، سمجھا اور غور نہیں کیا۔
آئیے دیکھیں یہ عربی فقرہ کیا مطلب رکھتا ھے۔
فی یعنی میں
فیصد یعنی سو میں
فی الدّنیا یعنی دنیا میں
فی الحال یعنی حال میں

کسی اور صاحب نے لکھا تھا دن با دن جو دن بہ دن ھونا چاھیے تھا۔

کئی حضرات لکھ رھے ھیں "ایسا ہی صحیح"۔ یہ دراصل لفظ سہی ھے۔ کیا ھم نے فقرہ "رہی سہی کسر نکالنا" نہیں سنا۔

چند حضرات بے جا ی استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً فائدہ کو غلطی سے فائیدہ لکھتے ہیں، جو انکی دانست میں صحیح بھی ھے۔

خود میرا یہ حال ھیکہ میں وثوق سے یہ کہہ نہیں سکتا کہ حذف اور ہذف میں کیا صحیح ھے۔ میں کبھی پہلی تو کبھی دوسری شکل استعمال کرتا ھوں اور آج تک کسی نے اعتراض نہیں کیا۔

حل کیا ھوسکتا ھے؟
آئیے ایک دوسرے کی غلطیوں کو دور کرنے کا بیڑہ اٹھائیں۔ عہد کرلیں کہ جب بھی آپ کوئی لفظ ایک سے ذائد مرتبہ ایک مضمون میں غلط لکھا پائیں، اُس مضمون(پُوسٹ) پر تبصرہ(کَمِینٹ) کرکے اسکی تصحیح کرینگے۔
آئیے معیاری اردو لکھیں اور اردو کی ترویج کے ساتھ اسکے صحیح استعمال کو بھی عام بنائیں۔

آخر میں...
اوروں کے ساتھ کیا سلوک کریں؟

وہ الفاظ جن کا تعلّق دوسری زبانوں سے تصدیق شدہ ھے لیکن اردو میں ان کے متبادل نہیں ہیں انہیں اپنائیت سے استعمال کریں۔
مثلاً فِلم کی جمع فلمز کے استعمال سے بچیں بلکہ اپنا سمجھ کر اسکی جمع فلمیں بنائیں۔
لیکن وہ الفاظ جو غیر ضروری طور پر استعمال ھورہے ھیں۔ مثلاً ایوارڈ، ایٹمی، چکن وغیرہ- جنکے لئے عام فہم اردو الفاظ پہلے ھی مروّج ھیں، ان کے استعمال سے حتٰی الامکان گریز کریں کیونکہ یہ لاعلمی یا فیشن زدگی ظاہر کرتے ہیں۔

Saturday, November 26, 2005

تخریبی انقلاب

اِس ہفتہ میں جو انقلاب برپا ھوا ھے شاید ہی کبھی ھوا ھوگا۔

میرے ظالم-عزیز روزنامہ انقلاب کی زباں کی زبوں حالی کے کیا کہنے۔ یہ ایک دکھ بھری کہانی ھے، آپ کے آنسو نکل آئینگے۔ خیر...
کل انقلاب میں صفحۂ اوّل پر جو تصویر تھی اس کے نیچے عبارت میں لفظ کِیوبِک استعمال ھوا تھا جو یقیناً لفظ مَکعَب ھونا چاہئے تھا۔
ساتھ ہی الماری کیلئے لفظ کَبَاٹ کا استعمال کیا گیا تھا۔ یہاں یہ قابلِ ذکر بات ھیکہ گنواروں کا لفظ کباٹ/کپاٹ انگریزی لفظ کَپ بُورڈ کی عام فہم بگڑی شکل ھے۔

آج تو انقلاب نے ایک اور لفظ استعمال کیا، گَھاس لِیٹ۔ اِشارہ دراصل مِٹّی کے تیل کی جانب تھا۔ یہ بھی ایک گنواروں کا لفظ ھے جو اب کم استعمال ھوتا ھے۔ مراٹھی والے پہلے اسے رَاکِیل بُلاتے تھے جو رَاک آئِل (چٹانی تیل) کی بگڑی شکل تھی، لیکن اب کِیرُوسِین مروّج ھے۔

کیا اب ھماری یہی اوقات ہیکہ ھم ان جاہل-اردو والوں کے زیرِ نگیں رہیں؟

ماضی میں بھی عام فہمی کی آڑ میں ان حضرات نے اردو کو رُسوا کیا ھے؛
جگہ/زمیں کیلئے لفظ پلاٹ کا استعمال تو انکے لئے فطری ھے۔ لیکن اِسکے لئے کوئی مناسب لفظ ڈھونڈ نکالنا درکنار۔
پیمائش میں مربّع فٹ کیلئے یہ لفظ اِسکُوَائر استعمال کرتے ہیں۔
اعزاز جیسے عام فہم لفظ کو ایوارڈ سے چُھپا دیا گیا ھے۔

سچ ھے اردو والوں سے کوئی "جس تھالی میں کھاتے ھیں اُسی میں چِھید کرنا" سیکھے۔

Wednesday, November 23, 2005

لطیفے سَنت اور بَنت کے

بَنٹا سِنگھ شرارت سے سَنٹا سِنگھ کو یہ مختصر پیغام (ایس ایم ایس) بھیجتا ھے "بھیجنے والا انسان، پڑھنے والا گدھا"
سنٹا سنگھ حسبِ عادت طیش میں آکر جواباً لکھتا ھے "بھیجنے والا گدھا، پڑھنے والا انسان"

ابن ِ سنٹا عرضی لکھتے ھوئے والد سے سوال کرتا ھے "مادری زبان کیا لکھوں؟"
حضرت ِ سنٹا جواباً یوں گویا ھوتے ھیں "بیٹے، --بہت لمبی-- لکھ دو"

سنٹا کسی آیا (نَرس) کے عشق میں گرفتار ھوجاتا ھے۔
کئی روز کے تذبذب کے بعد آخر کار ہمّت کرکے اُسے ایک عشق نامہ پکڑا ھی دیتا ھے جسمیں انگریزی میں لکھا ھوتا ھے "I LUV U SISTER"

یہ ٢ لطائف انگریزی میں ھی کہنے ھونگے

Santa is caught for speeding and goes before the court.
The judge: What'll you take 30 days or Rs. 3000/-.
Santa: I think I'll take the money.

Banta: Name the 3 fastest means of communication.
Santa: Telephone, Television, Tell-a-woman

Tuesday, November 22, 2005

اِنقَلابَر

آج کے روزنامہ انقلاب میں اشتہار یوں تھا
ضرورت ھے بہترین شرٹ اور ٹراوزرس کاریگرس کی

میں کاریگرس پڑھ کر پہلے ہنسا اور پھر غمگین ھوا۔
میں ہمیشہ اِس خیال کا حامی رہا ھوں کہ انگریزی الفاظ کو تَفریس، تَعریب یا ھِندیَا کر ھی اردو میں استعمال کرنا ھوگا ورنہ وہ مرجائیگی۔
مثلاً
"پلیٹیں کہاں رکھی ھیں؟" کہنا ھوگا نہ کہ "پلیٹس"
"سَچِن نے کتنے رَن بنائے؟" کہنا ھوگا نہ کہ "رَنز"
"چاکلیٹ کہاں ھیں؟" نہ کہ "چاکلیٹس"
"ھندوستانی فِلمیں اَچھی ھُوا کرتی تھیں" کہنا ھوگا نہ کہ "فِلمز"

لیکن انقلابی نے تو حد ھی کردی۔ کاریگر اردو لفظ ھونے کے باوجود اُس کی جمع کاریگروں کی بجائے کاریگرس بنائی۔

نمک کا کچھ تو حق ادا کرتا!

Monday, November 21, 2005

مُسلم اِدارہ بامِ عُروج پر

کل میں شہر کے نامی مُسلم اِدارہ کے شعبۂ دَندان (ڈینٹل ڈپارٹمنٹ) میں "فاؤنڈیشن ڈے (Foundation Day)" پر مَدعُو تھا۔ یہ تقریب ادارہ کے مقابل سبز میدان پر منائی گئی۔
اِسی میدان پر گذشتہ ماہ "ڈاکٹر ذاکر نائک" (جو ماہرِ تقابلِ مذاہب و پیشہ ور طبیب بھی ھیں) کا بیان تھا جسکا عنوان تھا "اِسلام، ہندو دھرم اور عیسائیت میں یکسانیت"۔

خیر اِس بار طلبہ و طالبات کا یہاں جمِ غَفیر تھا۔
سامنے اِسٹیج پر لکھا تھا "Gany pavillion" جو شاید "غَنِی" ھوگا۔ پھر اُس اسٹیج پر طالبِ عِلموں نے اپنے جوھر دکھائے۔
پہلے طالبات کا فَیشَن شُو ھوا جو کافی پیشہ ورانہ انداز میں کیا گیا تھا۔ تمام دو شیزاؤں نے اپنے کمر کے ناپ جھلکائے۔ اِس نے لڑکوں کو بہت محظوظ کیا۔ ایسے لگتا تھا جیسے اُن کے دیرینہ خوابوں کی تعبیر دیکھ رھے ھوں۔
شور، پکوان اور انسانوں کی بہتات میں کمی تھی تو صرف کپڑوں کی اور یہ مرض صرف خواتین کو لاحق تھا۔
اکثر لڑکیاں ساڑی زیبِ تن کئے تھیں جنمیں بلاؤز کی پشت حسبِ روایت نام نہاد تھی اور کمر پر درمیان میں چسپاں "ٹَیٹُو" جھانک رھے تھے۔

پھر "ایک شادی" اِس عنوان پر رقص پیش کیا گیا جو کئی نغموں پر مشتمل تھا۔
اِسمیں آجکل شادی تک پہنچنے کے مراحل سے متعلق نغمات پر رقص میں "١٨ برس کی کنواری کلی تھی" پر بھی رقص ھوا۔

پھر اعلان ھوا کہ ایک بچّہ حاضرین کو اپنے فن دکھانا چاہتا ھے اور اُس نے شعر گوئی سے یوں آغاز کیا۔
سائیکل چلانے سے پہلے پَینڈل دیکھنا چاہئے
سائیکل چلانے سے پہلے پَینڈل دیکھنا چاہئے
لڑکی پَٹانے سے پہلے سَینڈل دیکھنا چاہئے

نوجوانوں میں "اُوووووو" کا شورِ داد بلند ھوا۔ غالباً قافیہ بندی کیلئے پَیڈل کو پَینڈل کہا گیا تھا۔

اب اُن چھوٹے حضرت نے مزید کمال دکھایا
یُو-اِیس-اِے یعنی اُرمِلا سنڈاس کے اَندر
اس پر ارملا ماتونڈکر کے مدّاحوں کو اُن کی سہیلیوں نے چھیڑا۔
چَائِنا یعنی چَڈّی ہَینگِنگ اِن نَورتھ اَمَیرِکا
لڑکوں نے بے جا داد دیکر بدلہ لیتے ھوئے سہیلیوں کو للکارا۔

حاضریں نے محظوظ ھوکر اپنے طرزِفِکر و تعلیمی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔

اسٹیج کے پیچھے ھی ایک عالی شان مسجد بھی تھی۔ نعوذ بِاللّہ فرشتے بھی وہاں محوِ رقص ھوگئے ھونگے۔

Thursday, November 17, 2005

نَغمَہ ھے بُوئے بُلبُل، بُو پُھول کی چَہِک ھے


"وَھاٹس اِن اَ نِیم" کا کئی بار حوالہ دیا جاتا رھا لیکن بھارت میں اَندھا دُھند ناموں کی مَن مانی تبدیلیاں جاری رھیں۔
جہاں "بَمبئ"، "مُمبئ" بنا جس نام سے مُسلمانوں کو کوئی سَروکار نہ تھا وہیں "اَورنگ آباد" کو "سَمبَھاجی نَگر" بنانے کی ناکام کوشش کی گئی۔
لیکن "عَدل آباد" کو "مُکتائی نَگر" اور "چاندَہ" کو "چَندرپُور" بنا ھی دیا گیا۔
اُردو اخبارات نے تو "مُمبئ" خندہ پیشانی سے قبول کیا لیکن مراٹھی اخبارات ذاتی و غیر قانونی طور پر "سمبھاجی نگر" پر اَڑے ھیں اور اُسے ناحق فروغ دے رھے ھیں۔
وہیں یہ دعویٰ بھی کیا جارھا ھے کہ "اَحمَد نَگر" مشکل نام ھے اسی لئے چند وطن (بطن؟) پرست عناصر جنہیں جمہور کی پُشت پناھی حاصل ھے اسکے لئے "نَگر" کو مُروّج کرچکے ھیں۔

اِسی اِضطراب میں یہ نظم نما نثر بے اختیار انگلیوں پر آگئی۔
مجھے نہ تو بحریں آتی ھیں اور نہ ھی میں نے کبھی کوئی شعر کہا ھے۔


کہا اُس نے اِنہوں نے مان لیا
نام میں کچھ نہیں یہ جان لیا

پرانا نام جو ھونٹوں پہ آگیا اُس روز
لشکر ِ وطن پرستوں نے مجھے آن لیا

"جان لے یہ ھے اِسکا اصلی نام
کیوں وہ تُونے خبیث نام لیا؟

جان اِس نامِ نَو پہ دینا ھے
جان لے یہ اگر نہ جان لیا

جان سے تجھ کو گر ھے پیار ابھی
جان کر کیوں وہ تو نے نام لیا؟"

جان پر جب ھے اپنے بَن آئی
جان کر پھر نہ ھم نے نام لیا

جان جلتی ھے نامِ نَو پہ مگر
جانِ من کو ھے اسمِ عام دیا

آن کی شان دیکھ لو لوگو
آن کی آن میں ھے نام دیا

نام وہ ھے جو سب نے مان لیا
نام میں کیا یہ ھم نے جان لیا

دیکھا مغرب کے شر پسندوں نے
اُن کی باتوں نے دُوجا کان لیا

Friday, November 11, 2005

آزاد و روشن خیال

کہا جاتا ھیکہ جب آپ کسی پر اُنگلی اُٹھاتے ھیں تو بقیہ تین اُنگلیاں خود آپ کی طرف اور انگوٹھا اوروں کی جانب اشارہ کرتے ھیں۔
میں نے یہ ترکیب لگاکر جب بھی کسی روشن خیال کا تصوّر کیا تو میں نے خود کو اُس سے تین گنا روشن خیال پایا۔ :)

لیکن احتیاط ملحوظ رھے۔ الفاظ "رَوِش" اور "رَوشَن" میں اکثر لوگ دھوکا کھا جاتے ھیں۔
روش خیالی یعنی اپنے خیالات کو آج کی روش پر موڑنا۔ بارہا حضرات جب روشن خیالی کی بات کرتے ھیں تو انکی مراد روش خیالی ھوتی ھے۔
ویسے حقیقی روشن خیالی میں بھی "چراغ تلے اندھیرا" کا خطرہ ذیادہ رہتا ھے۔

اِسی طرح اکثر آزاد خیال حضرات فکر میں آزاد ھونے کی بجائے فکر سے آزاد، خیالوں میں آزاد یا خیالی آزاد ھوتے ھیں۔ لہٰذا فکر اُن کے پاس پھٹکنے سے بھی کتراتی ھے۔

Thursday, November 10, 2005

بھینس کے آگے بین

صُبح ایک موبائل فون والے کی دوکان جانے کا اتّفاق ھوا۔ وہیں ایک شمالی ھندی باشندہ بھی پہنچ گیا اور اُس نے "فِیتی" طلب کی۔
دوکاندار اُس کا مُنھ تَک رہا تھا چونکہ وہ فیتی سمجھنے سے قاصر تھا اور میں مسکرارہا تھا کیونکہ میں سمجھ چکا تھا کہ وہ اپنے موبائل فون کیلئے گلے لٹکانے کی ڈوری(بیلٹ) مانگ رہا تھا۔
اُس گاہک نے مطلوب شئے کی جانب اِشارہ کیا تو دوکاندار سمجھا لیکن آگ بگولہ بھی ھوا اور کہا "کیا فیتی لگا رکھا ھے، رسّی بول"۔
گاہک کی اِسطرح بے عزّتی پر میرا خون کَھوَل اٹھا۔ میں نے دوکان پر ایک سرسری نظر دوڑائی تو اوپر ایک تُغرہ آیات و کلمات سے بھرا دکھائی دیا۔
میں سمجھ گیا کہ زبان و ادب سے نابلد و بے نیاز اور "شاہانہ تمکنت" والا شخص بھلا اور کون ھوسکتا تھا!

Wednesday, November 09, 2005

ماہِ رمضان کی رُوداد

ھندوستان میں اِس بار عیدالفطر اور دیوالی دونوں تہوار ایک ھی ھفتہ میں منائے گئے۔ دیوالی سے قبل نوراتری(٩ راتیں) نامی تہوار تھا جو رمضان کے دوران تھا۔
یہ غالباً گجراتی تہوار ھوا کرتا تھا جس میں دیر رات تک موسیقی اور ناچ ھوتا تھا جسے "ڈانڈِیا" کہا جاتا ھے۔
یہ ناچ ملک بھر میں گذشتہ دہائی میں بہت مقبول ھوا جس کی ٢ وجوہات تھیں، اوّل موسیقی کے طاقتور آلات کی ارزاں دستیابی، دوّم عوام کا موسیقی سے والہانہ لگاؤ۔
پھر کیا تھا فلموں میں بھی ڈانڈیا ناچ کیلئے موزوں نغمات کا تانتا بن گیا۔ رہی سہی کسر "ری مِکس" والوں نے ناموزوں نغمات کو معقول بنا کر پوری کردی۔
گذشتہ چند برسوں سے کئی لوگ (غیر مُسلم) اِس شور کے خلاف احتجاج کرنے لگے تھے۔ آخر کار عدالتِ عالیہ نے اونچی آوازوں پر رات ١١ بجے سے صبح ٦ بجے تک پابندی عائد کر ھی دی۔
اس پابندی سے دیر رات ڈانڈیا کے ساتھ ھی فجر کی اذان پر بھی ڈنڈا پڑا۔ لیکن عوام نے ہمّت نہ ہاری اور عدالتِ عالیہ کو ١٥ روز کیلئے اِطلاق کو بالائے طاق رکھنے پر راضی کر ھی لیا۔دوسروں کی اِس کامیابی سے ہمّت افزائی کے نتیجہ میں چند مُسلم حضرات نے بھی اپنی سی کوشش کی اور فجر کیلئے چند منٹوں کی راحت مانگی لیکن انہیں مایوس ھونا پڑا۔

اب منظر یوں ھوا کرتا تھا
١- عین افطار کے وقت بجلی کی قلّت سے نِمٹنے کی کوشش کے تحت سنّاٹا چھایا رہتا۔ نہ افطار کا انداذہ ھوتا نہ ھی تسلّی بخش انتظام کیا جاسکتا تھا۔
٢- تراویح کے اوقات میں فضا موسیقی سے پُر ھوتی۔
٣- اِسکے بعد سَحر میں اُٹھنے کیلئے جلد سونے کی کوشش کرتے وقت جُھلّاہٹ ھوتی کیونکہ آپ جس مخلوط علاقہ(سوسائٹی) میں رھتے ھیں وہاں پڑوسی اپنا عوامی حق وصول کررھے ھوتے۔
٤- سحری کے وقت پھر سنّاٹا رہتا اور فجر کے وقت کا گھڑی دیکھ کر اندازہ کرنا پڑتا۔
٥- فجر کی نماز جب مسجد میں جاری ھوتی تو ١ رکعت کے بعد ھی ٦ بج جاتے اور شور کی آزادی اپنا رنگ دکھانے لگتی۔ قریب کے مندر سے موسیقی کے ساتھ پر جوش فضائی ارتعاش جاری ھوتا اور بقیہ نماز بھجن کے کلمات سے ادا کرنی پڑتی۔

اِس کا یہ اثر بھی ھوتا کہ فجر کے بعد جب روزہ دار اپنی رات کی نیند پوری کرنا چاہتا تو اُسے پھر شور سونے نہ دیتا اور رات میں جلدی سونا تو نصیب ھوتا ھی نہ تھا۔
خیر اب رمضان ختم ھوچکے اور نیند کی قِلّت و موسیقی کی فراوانی بھی۔