Thursday, March 16, 2006

تنظیم ِ والدین اردو مدارس

تنظیم کے نائب صدر جناب مرزا ظفر بیگ صاحب سے کسی تقریب میں ملاقات ھوئی تھی۔ ان ھی کے طفیل تنظیم کے صدر جناب عبدالکریم عطّار صاحب سے خاص طور پر ملاقات کیلئے جانے کا اتّفاق ھوا۔
تنظیم کے دفتر کی حالت بالکل اردو جیسی ھے، پرانے شہر کے مومن پورہ محلّے میں ایک بوسیدہ سا کارخانہ جس کا دفتر صدر صاحب کا ذاتی دفتر کم اور تنظیم کا اھم مرکز ذیادہ ھے۔

صدر صاحب نے پہلے مجھ سے خوشی کا اظہار کیا کہ کسی غیر-بوڑھے شخص نے تنظیم کی سرگرمیوں میں دلچسپی دکھائی ھے۔
انہوں نے پہلے اس بات پر زور دیا کہ ھمیں اردو سے کوئی لگاؤ نہیں ھے حالانکہ ھم اس تنظیم کے دائرہ میں صرف اردو مدارس قائم کرتے ھیں۔ بلکہ ان کے اعداد و شمار کے مطابق جو مسلمان طلبہ و طالبات اردو مدارس میں داخلے لیتے ھیں ان میں سے ٧٠ فیصد درجہ دہم تک پہنچ جاتے ھیں، لیکن اس کے برعکس جو مسلمان مراٹھی و انگریزی مدارس میں داخلے لیتے ھیں ان میں سے صرف ٣٠ فیصد درجہ دہم تک کا سفر بخوبی طے کرتے پائے گئے ھیں۔
انہوں نے مزید اس بات کا بھی ذکر کیا کہ بہتیرے مسلمانوں نے ان کے اردو مدارس کے قیام پر وجوہات جاننے کے باوجود نکتہ چینی کی ھے۔

تنظیم چاہتی ھے کہ اس کے قائم کردہ مدارس کی خود نگرانی کرے اور انہیں سہولیات بہم پہنچائے لیکن اس کیلئے دائمی طور پر خطیر رقوم درکار ھونگی لہٰذا وہ مدارس کے قیام کے بعد اس بات پر ذیادہ توجّہ دیتے ھیں کہ ان کی باگ ڈور ریاستی حکومت کو سونپ دی جائے۔(میری رائے میں یہ ایک اچّھا خیال ھے کیونکہ اسطرح ھمارے ادا کئے گئے محصول کا کچھ تو حصّہ ھمارے اپنے لوگوں کی فلاح کے کام آئیگا)
تنظیم کے دفتر میں سارے ھی عمر رسیدہ حضرات تھے۔ نائب صدر نے ان کی ہمہ وقت مالی امداد کا ذکر بھی کیا۔

تنطیم نے اپنی کاوشوں کو ابھی تک غریب مسلم عوام کو تعلیم کی طرف دعوت دینے تک محدود رکّھا ھے۔
میں نے اپنا خیال ظاھر کیا کہ میں اس کار ِ خیر کے ساتھ ھی اس بات کا قائل ھوں کہ ھم نے اپنے متوسّط و متموّل طبقہ تک معیاری اردو تعلیم پہنچانے کیلئے کوئی ٹھوس قدم نہیں اُٹھایا ھے۔
لہٰذا کئی اردو پرست حضرات معیاری اردو تعلیم/مدارس کی عدم موجودگی کے تحت بہ دل ِ نخواستہ انگریزی مدارس کی طرف رجوع کرتے ھیں۔ اس ابھرتے طبقہ اور کھاتے پیتے خاندان کی اولادوں تک اردو کی رسائی کیلئے نجی/غیر سرکاری اردو مدارس کا قیام وقت کی ایک اھم ضرورت ھے۔

نائب صدر صاحب نے علیحدہ گوشے میں مجھ سے شکایت کی کہ بیشتر اردو مدرّسین اپنی اولادوں کو انگریزی مدارس روانہ کرتے ھیں۔ مزید یہ کہ خود ان کی خواہش کے برعکس ان کے اپنے پوتے انگریزی مدارس بھیجے جاتے ھیں۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں مانا۔

انہوں نے اسلام کے حوالے سے "جو چیز اپنے لئے پسند کرتے ھو وھی دوسروں کیلئے بھی پسند کرو" پر اردو مدرّسین کے ضمن میں قول و فعل کے فرق کو بھی اجاگر کیا۔
اسی قول/حدیث کے تحت اکثر مسلمان اس غلط فہمی کا شکار ھوگئے ھیں کہ اگر وہ اپنے بچّوں کیلئے معیاری تعلیم (یعنی انگریزی) پسند کرتے ھیں تو پھر انہوں نے دوسروں کیلئے وہی پسند کرتے ھوئے صرف انگریزی مدارس قائم کرنے چاہئیں۔
کیا یہ کہنا صحیح نہیں ھوگا کہ کم از کم وہ حضرات جنہوں نے اپنے لئے اردو کے ٹکڑے پسند کئے ھیں انہوں نے دوسروں کیلئے بھی وہی پسند کرنے چاہئیں۔

2 Comments:

At 10:19 PM , Blogger افتخار اجمل بھوپال said...

یہ باتیں ہمارے مُلک پر بھی صادق آتی ہیں ۔
اور ہاں یہ آپ کی گھڑی کِس ملک کا وقت بتا رہی ہے ؟ اِس وقت ہندوستان میں سوا بارہ بجے ہیں اور یہ سوا چھ بتا رہی ہے

 
At 5:56 AM , Blogger urdudaaN said...

مجھے لگتا ھے کہ میں نے اس گھڑی کیلئے
URL/link
بناتے وقت
GMT+5:30
پر توجّہ نہیں دی تھی۔ بعد میں کاہلی کے سبب درست کرنے کو ٹالتا رہا ھوں۔
سوچ رہا ھوں یہ کام اب کر ہی لیا جائے۔

 

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home