Saturday, March 29, 2008

بریانی، حلیم اور پائے : مختصر تاریخ

مندرجہ ذیل اقتباس حیدر آباد کے ایک ہوٹل کے پرچہ سے ماخوذ ہے۔
[Following text is reproduced here verbatim from a sheet of paper. It is presented here with some additions inline and enclosed in brackets.]

In the olden days when the armies marched long stretches, they were to be fed in the most befittingly nutritious manner. Hence they carried with them herds of sheep, goats, rations of rice and wheat. The meat was then cooked with rice or wheat, what was cooked with rice came to be known as BIRYANI (بریانی = biryaani) and with wheat as HALEEM (حلیم = Haleem). The remnants of the lamb such as trotters, organs etc was cooked overnight and served the next morning came to be known as NAHARI/PAYA (نہاری/ پائے = nahaari/paa'ey).

The Nizam (نظام = nizaam) and other members of the royal family, such as Salar Jung (سالار جنگ = saalaar jang), Viqar-ul-Umrah (وقارالامراء = wiqaarul umraa) with unwavered dedication from the Royal cooks of the erstwhile Nizam perfected this most ordinary cooking by using expensive, special and aromatic ingredients to produce food of the highest quality of taste and nutrition, creating a perfect balance of proteins, carbohydrates etc.
The extent of care taken is evident from the fact that even the metal that is used in the cooking vessels, was predominantly copper, which helps in slow cooking, while retaining the original flavors of meats etc.

Hyderabad House (حیدرآباد ہاؤس = Haidar-aabaad house), established in 1975 by its founder Late Mir Baber Ali (میر بابر علی - مرحوم = meer baabar Ali - marhoom), continues this legacy with equal finesse, which has made it a household name among one and all in Hyderabad. It intends to promote this unique cuisine not only in the city but also to all parts of the country and abroad.

Monday, March 17, 2008

سنجے گوڈبولے

سَن جَے گوڈ بولے پونہ کی ایک مشہور ہستی ہیں۔ برہمن فرقہ سے تعلّق رکھتے ہیں۔ اردو، فارسی، عربی اور آثارِ قدیمہ سے خاصی رغبت رکھتے ہیں۔ کسی برہمن کا تعلیم و معلومات سے شغف ایک عام فہم حقیقت ہے۔ انگریزی و مراٹھی اخبارات و رسائل میں انکے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔

آفاقی اردو کتب خانے کتاب گھر، اردو دوست اور اردوستان سے ان کے چند مضامیں و کتابیں مفت حاصل کی جاسکتی ہیں۔

سنجے صاحب کا آثارِ قدیمہ سے بہت گہرا تعلق ہے۔ شہرِ پونہ میں آثارِ قدیمہ کے شائقین میں وہ ایک ممتاز ہستی ہیں۔ مشہورِ زمانہ کتاب لِمکا میں ان کا نام قدیم تصاویرو دستاویزات جمع کرنے کی ضمن میں درج ہے۔ اسکے علاوہ قدیم فنون کا ایک ذخیرہ بھی آپ کے پاس موجود ہے۔ قدیم سکّے جمع کرنے سے متعلق ایک کتاب بھی لکھ چکے ہیں

آپ ایک تاریخ داں بھی ہیں اور شہرِ پونہ اور بلوچی فرقہ پر آپ تفصیل وار تبصرہ بھی کرچکے ہیں۔ سنجے صاحب کے مضامیں روزنامہ اِنڈیَن ایکس پریس میں اور پونہ کی طرزِ زندگی نامی موقع پر دستیاب ہیں۔

آپ کی قابلِ ذکر تصنیفات جانشینِ داغ: بھائی جان عاشق اور غالبیات پر تین یادگار تقریریں کتاب گھر پر نستعلیق pdf کی شکل میں مفت نزول کیلئے فراہم کی گئی ہیں۔ اسکے علاوہ اردوستان پر اردو کا مستقبل کے زیرِ عنوان ان کا مضمون قابلِ توجّہ ہے۔

Labels: