بشکریہ والدِ محترم
Urdu is disappearing so fast. I am a perfectionist when it comes to languages and particularly Urdu. In that sense, urdudaaN is a misnomer. I am not an expert, but am rather trying to do things perfectly. I strongly support Urdu being written in other scripts for a wider audience, but.....BUT...
ان کی شخصیت میں غالباً اتنی خوبیاں تھیں جتنے میرے اندازے کے مطابق ان کے نام میں دیگر نام پہچانے جاتے تھے اور ان شخصیات کی خوبیاں
ابوالفاخر
زین العابدین
ابوالکلام
جس سے میرے اندازے کے مطابق وہ بن گئے تھے
Avul Pakir Jainulabdeen "A. P. J." Abdul Kalam
Recently, there were two interesting articles written about him by Muslims reflecting on his tenure as a President:
A Necrology For APJ Abdul Kalam -- Abdul Majid Zargar
A President And A Yogi: Abdul Kalam’s Symbolism -- Farzana Versey
I find all those animated .gif images with text animation running on Urdu blogs not doing justice to the rich tradition of Perso-Arabic calligraphy or contemporary high resolution displays. On the other hand, the tuGHraas below are light weight in terms of both download size & computing requirements, hence very modern & futuristic - IMHO.
اسمائے حُسنیٰ = أسماء الحسنى
Afsos huwa keh is ka aSl Urdu mawaad google waGHaerah ke ilm meiN naheeN hai, lihaazah hamaari pahoNch se baahar hai. Romi Urdu taehreer is jagah hai, lekin GHaaleban laaparwaahi ki shikaar hai :(
maiN ne apni behtareen koshish karke durust karne ki gustaaKHi ki hai. meri qaari'een se bazaate-KHud sunne aor apni aaraa se nawaazne ki guzaarish hai.
Urdu & Muslim culture is open to vandalism, even Muslims take a lion's part in it.
While the progressives have dumped Laxmi and Sircar in favour of Lakshmi and Sarkar, and there is even an H in Hrithik, the attitude of Muslims (and towards Muslims) remains hopelessly orientalistic.
Let's review these instances:
1. I heard two of my non-Muslim colleagues uttering shamelessly "maiN kya urdu meiN bol raha hooN", when someone didn't get what they were saying. [I stopped talking about Marathi movies at all in response to this.]
2. One Mr. Sarosh Khule (second name changed) wrote to a group of Muslims (IT Professionals) about a school. All those Muslim guys recklessly kept referring to him as "Saroch" and "Saroche" in their emails.
3. A Muslim news portal misspelled the name as "Dr. Chisty" instead of "Dr. Chishti". Interestingly, the source they referred in their news [http://www.thenews.com.pk/article-43925-Dr-Chishti-released-from-Indian-jail] had it correct.
4. While referring to people someone named Muhammad Afsar, it is incorrect to refer to him as Muhammad later on in the same passage. He should instead be referred to as Afsar. Not only do non-Muslim media resort to this apathy, Muslim media follow the suit instead of correcting them.
E.g. A Muslim news portal had this:
Zahida Parvez, prime accused in activist Shehla Masood's murder ......
Parvez, an interior designer, was presented before Special Judge ....
Masood was shot dead outside her house ...
یہ کام دو طریقوں سے کیا جا سکتا ہے؛
اول تو یہ کہ جدھر سے اینٹ آئی ہو اسی سمت جوابا پتھر پھینکا جائے جو ایک قدیم رد عمل ہے
دوم یہ کہ جوابا پتھر اپنے ہی سر مار لیا جائے
چونکہ میں نئے زمانے کا مسلمان ہوں جو قدامت پرستی کا قائل نہیں ہوتا اسلئے میں آخرالذکر یعنی دوسرے رد عمل کا شیدائی ہوں
اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپکے جوابی پتھر سے کسی غیر مجرم کو نقصان پہونچنے کا خدشہ نہیں رہتا اور نہ ہی کوئی اپنی اینٹوں کو آپ کے مضبوط پتھروں سے بغیر زر مبادلہ ادا کیے تبدیل کر سکتا ہے
لیکن سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کے پتھر تو اپنے ہی پاس رہتے ہیں اور بغیر زر کاری کیے اینٹوں کی شکل میں سود بھی ملتا رہتا ہے
اس رد عمل کی ٹھوس مثال میرا یہ لسانی ردد عمل ہے
ایک گجراتی خیر خواہ نے زیرہ کو zeerah کی بجاۓ jeera لکّھا، جب ہم نے ٹوکا کہ یہ غلط ہے تو انہوں نے کہا کہ اردو میں جو ہو گجراتی میں یہی صحیح ہے.
تب جاکر ہمیں یہ احساس ہوا کہ اگر ہم زیرہ کو cumin ہی لکھتے تو یہ نوبت نہ آتی اور ہم نے ایسا کرنے کا تہیہ کرلیا. ہمارے اس طرز عمل میں مندرجہ بالا تمام پہلو صاف نظر آتے ہیں.اب جب ہم انٹرنیٹ پر کچھ لکھتے ہیں تو cumin کے قوس میں زیرہ لکھ دیتے ہیں ، اور جب ہمارا عزیز گجراتی دوست لکھتا ہے تو jeera کے قوس میں cumin لکھتا ہے.
اور چونکہ ہم یہ جان چکے ہیں کہ گجراتی میں صحیح کیا ہے تو ہم جب بھی کسی گجراتی سے مخاطب ہوں جیرا کے تلفّظ کا خاص خیال رکھتے ہیں.
مسلمانوں میں یہ فقرہ ضد، اڑیل پن، ہٹ دھرمی وغیرہ کیلئے بڑے شوق سے استمعال ہوتا آیا ہے
یہودیوں کا ہٹلر پر دائمی اور حتمی الزام ہے کہ اس نے ان کا قتل عام کروایا
دوسری طرف مسجد اقصیٰ کا دم بھی ہم لوگ ہی بھرتے آئے ہیں
اس کا یہ مطلب ہے کہ دنیا کے تیسرے کونے میں رہنے والے جاہل مسلمان تک یہودیوں کے غم میں انجانے طور پر شریک ہیں
لیکن کسی مظلوم کو یہ نہیں کہا جاتا کہ یہ تو "تمہاری فلسطینئی ہے" یا تم تو "یہودیت کا شکار" ہو
"اور نہ ہی یہ کہ "بش ہٹلری پر آمادہ" ہے یا امریکہ بہت "ہٹلری کررہا ہے
غالباً یہی دو قسمیں پائی جاتی ہیں؛ اوّل زمرے میں زیادہ تر اردو اور دوسرے میں کئی انگریزی اخبارات اور جرائد آتے ہیں۔
مثلاً گجرات مُسلم کُش فسادات کے بعد سے آج تک اردو اخبارات و رسائل اس کا سوگ مناتے ہوئے ہائے ہائے کرتے آئے ہیں۔
اور انگریزی رسائل "فَورگیٹ اَینڈ فَورگِیو" کے تخت وہ حدیث دہراتے آرہے ہیں جس میں ایک عورت پیغمبرِ اسلام پر کچرا ڈالا کرتی تھی۔ اللّہ اللّہ
انصاف اگر چھینا نہیں تو کم از کم مانگا تو جاسکتا ہے!
میں مسلم اکثریتی علاقہ میں نہیں رہتا، جہاں تمام قسم کے حلال گوشت اور کھجور جیسی چیزوں کی فراوانی ہوتی ہے۔ ان "پسماندہ" علاقوں میں قلّت صرف راستوں کی ہوتی ہے۔ نجانے کیوں مسلمان علاقوں میں یہ رجحان ہر جگہ پایا جاتا ہے کہ ہم اپنی متعیّن جگہ سے پانچ فٹ آگے مکان بڑھالیتے ہیں۔
خیر، میں جس علاقہ میں رہتا ہوں وہاں کی صغیرہ و کبیرہ دکانوں کے میں نے چکّر لگائے لیکن کہیں کھجور نہ ملی۔ یہاں جو موَل اور بیکریاں ہیں (خواہ وہ مسلمانوں کی ہوں) تہواروں کا بطورِ خاص خیال رکھتے ہیں؛ دیوالی ہو یا کرسمس۔
لیکن کھجور اور دودھ جن کا استعمال رمضان میں بڑھ جاتا ہے، ان دونوں چیزوں کی قلّت سی ہوگئی ہے۔ وجہ یہ تھی کہ دوکانداروں کو رمضان شروع ہونے کا نہ تو علم ہے نہ ہی کاروباری اہمّیت۔ علم کیوں کر ہو؛ نہ تو رمضان کے ڈھول تاشے ہوتے ہیں اور نہ ہی کوئی دھوم۔
وہ دن ہوا ہوئے جب سحری ختم ہونے کا اعلان کیا جاتا تھا۔ اب تو صبح میں شور کرنے پر پابندی کی وجہ سے اذان کب ہوتی ہے معلوم نہیں ہوتا۔ پھر جب لوگ اپنے گھروں سے مسجدوں کیلئے نکلتے ہیں تو راستے میں ملاقات صرف کتّوں سے ہوتی ہے۔ جب سے کتّوں کے مارنے پر پابندی عائد ہوئی ہے، وہ بڑے غیر ذمّہ دار ہوگئے ہیں۔ کیا ان سے کوئی توقّع کی جاسکتی ہے کہ وہ دوکانداروں کو صبح کے حال سے مطلّع کریں گے! خیر چھوڑیے ان کتّوں کو۔
لیکن جب میں اس علاقہ کی مسجد میں جاتا ہوں تو کافی لوگ ہوتے ہیں، جس سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ اس علاقہ میں کتنے "چھپے رستم" (مسلمان) رہتے ہیں۔ اس علاقہ میں کاروبار کرنے والوں کی منافع سے اس بے رُخی پر مجھے غصّہ بھی آیا اور افسوس بھی ہوا۔
خدا خدا کرکے(اِسے شرک نہ سمجھیں، خدا سے میری مراد اللّہ ہے)، ایک راجستھانی حلوائی کے یہاں کھجور ملی؛ آدھا کلو کی جدید ہوا بَند پُڑیا، جو وہ ستّر روپئے "ایم-آر-پی" میں بیچنے پر بضد تھا۔ میں گھر آنے تک یہی سوچتا رہا کہ آئندہ سال کسی ایماندار ضرورت مند کی مالی اعانت کرکے اسے ایک "رمضان المبارک" دوکان لگانے پر راضی کرونگا۔ خیر، دوسرے روز میں نے اس کھجوری "استحصال" سے بچنے اور "باایمان" ہوا میں سانس لینے کیلئے مسلم بازار کا رُخ کیا اور ٣٠٠ گرام کھجور کیلئے ساٹھ روپئے ادا کرنے کے بعد استحصال کی ایمانی حالت کا مجھے علم ہوا۔
Labels: لطیفہ
یہاں اردو کی نئی اور پرانی سبھی کتابیں ملتی ہیں؛ مذہبی اور غیر مذہبی دونوں قسم کی۔ میں نے بھی چند کتابیں خریدیں۔
میں اس سڑک پر تھا جو وکٹوریا ٹرمِنَس (وی۔ٹی) سے بھینڈی بازار کی جانب جاتی ہے۔ میں بھیڑ چیرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا لیکن میری نظر یہاں کے مسلمانوں کی علمی فہم کو پرکھنا چاہتی تھی۔
"حج ہاؤس" کے سامنے سے گذرتے ہوئے یہ خیال آیا کہ اِسے "حج مندر" کہتے تو غیر برادران کی کتنی خوشنودی پاتے! حج ہاؤس سے بے ساختہ "کَوفی ہاؤس" یاد آیا۔
آگے ایک مسجد تھی اس کے دروازے کے قریب ایک جگہ سے فون کیا۔ مسلمان دوکان دار کے ساتھ حسبِ دستور کچھ غیر ضروری احباب بیٹھے تھے اور پر زور انداز میں یہ بات زیرِ بحث تھی کہ فلاں نمبر کس علاقہ کا تھا۔ بحث اتنی پُر جوش کہ فون پر بات کرنا مشکل ہورہا تھا۔
آگے ایک درگاہ پر "پیڈرو" نام لکھا تھا۔ انگریزی میں "pedro" اور ناگری میں "पेडरू" نجانے میں یہ کیوں سوچنے لگا کہ یہ "پَید رَو" ہونا چاہئے تھا۔
مزید آگے ایک چوک تھا جہاں لکھا تھا کہ یہ کسی کیلئے "sawab-e-zariya" کی نیت سے بنی ہے۔ کسی قابل ہندوستانی انگریز مسلمان نے j کی جگہ z لکھا تھا۔ کیا وہ جاریہ اور ذریعہ کا فرق سمجھتا ہوگا!
اس سڑک کے نام میں اوّل تو "مولانا" غائب ہے دوّم مُحَمّد کو ناگری میں "महंमद" لکھا ہے یعنی مَحَنمَد۔
میں نے جو کتابیں خریدیں؛
١۔ رشید حسَن خاں کی "تفہیم"
٢۔ مکتبہ جامعہ کے معیاری ادب سلسلہ کی "انتخابِ مضامینِ سَر سیّد"
٣۔ عنایت اللّہ التمش کی "داستان ایمان فروشوں کی"