Thursday, October 20, 2005

مُہذّب بد کلامی

ایک لکھنؤی حضرت کسی دوسرے شخص سے بحث کررھے تھے۔ دوران ِ بحث اُس نے ایک ایسی بات کہہ دی کہ جناب غضبناک ھوگئے۔
غصّہ تھا کہ قابو نہ کرسکتے تھے اور جب بدکلامی ناگزیر ھوگئ تو یوں گویا ھوئے؛
"دیکھئے میاں! اگر آپ نے مزید ایک لفظ بھی کہا تو خُدا نَخواستہ ھم آپ کی والدہ محترمہ کی شان میں گستاخی نہ کربیٹھیں"

Tuesday, October 18, 2005

انداز ِ اکبر

محمُود آباد کے نواب صاحب جو شِیعَہ العقیدہ تھے اور عرصہ سے کانگریسی رھے تھے، جب وہ مُسلم لِیگ کی بڑھتی مقبولیت کی وجہ سے اُس کے حامی ھونے لگے تو اکبر اِلہ آبادی نے یہ شعر(بَند؟) کہا تھا؛

مُذکّر "ھِی" کو کہتے ھیں، مؤنث "شِی" کو کہتے ھیں
وہ اک مردِ مُخنَّث ھیں، نہ "ھِیؤں" میں نہ شِیعُوں میں

اِسمیں انگریزی و اردو کا اچھّا امتزاج ھے۔ انگریزی he کی جمع ھیؤں اور she کی جمع شیعوں۔

Monday, October 17, 2005

اصطلاحات کا اِجراء

میں نے آپ بَلاگر حضرات کے کام و انٹرنیٹ پر جاری اردو سے مُتعلق کاوشوں کا نِچوڑ قلمبند کرنے کیلئے http://istilahat.blogspot.com جاری کیا ھے۔
آپ حضرات سے تعاون کی درخواست ھے۔
امّید ھیکہ آپ مُلک و مذہب، خِطّہ و سَرحد، مَوسم و وقت کو ملحوظ نہ رکھتے ھوئے اِس بے کارِ خیر کیلئے دامے و دِرَمے نہ سہی لیکن سُخَنے تو ضرور مدد کرینگے۔
آپ کے تبصرات کیلئے ممنوں رھونگا :)

Saturday, October 15, 2005

ناکامی کا سہرا

بنگلور(ھِند) سے شائع ھونے والے ایک انگریزی "اِسلامِک" اخبار کا خاص شُغل ھے مسلمانوں کی ساری ناکامیوں کا سِہرا اردو کے سر باندھنا (اردو ابھی جواں ھے!)۔
اِس اخبار نے تو یہ اِشارہ کرنے تک سے گریز نہیں کیا کہ اگر اردو ھندو و مسلمانوں کے درمیان حائل ھے تو مسلمانوں نے اردو ترک کرکے اِس رنجش کو دُور کرنے کی کوشش کرنی چاھئے۔
اوّل تو زبان سے بَیر اور وہ بھی مفروضات پر مبنی!
جِسکا تدارُک کرنے کی بجائے اِنہوں نے تو اردو زبان کا ھی کام تمام کردیا۔ پڑوسی کے پھوڑے کے علاج کیلئے اڑوسی کے بازو کاٹنے والے ڈاکٹر(قصائی) سے ھمارا ھی پالا پڑنا تھا! جناب! غلامی وہ بَلا ھے جو انگریزوں کے جانثاروں تک کو راس نہ آئی تو آپ کِس کھیت کی مُولی ھیں۔

جعفر از بنگال، صادق از دکن
ننگِ مِلّت ، ننگِ دیں، ننگِ وطن

آج اردو اخبارات جہاں بے تحاشہ انگریزی کے پیچھے دَوڑ رھے ھیں وہیں سارے انگریزی اَبلاغ (اِسلامی و غیر) اُلٹ اُن کے پیچھے کسی طرح ہاتھ دھوکر پڑے ھوئے ھیں۔ سچ ھے "گیدڑ کی جب موت آتی ھے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ھے"۔

اگر اِسلامِکین اردو کو مُوردِ الزام ٹھہرانے کی اِس حرکت سے باز نہ آئے تو اِن کی ناکامی کا سہرا بھی خُدا نَخواستہ اردو کے ھی سر بندھے گا۔

Thursday, October 13, 2005

اِنقلابی اُردو

بمبئ سے روزآنہ شائع ھونے والے اخبار "اِنقِلاب" کا یہ مضمون اردو سے متعلق ہے، جسمیں نہ صرف جابجا بیجا الفاظ استعمال کیے گئے ھیں بلکہ طباعت میں لاثانی خامیاں بھی ھیں جو نیچے دَرج کی ھیں۔
معلومات کی کمی کے باعث شاید میں نے غلط خامیاں تلاش کی ھوں
--------------------------------
اُردو ھے جسكا نام!
مکرمی!آج كے اِس ترقى يافتہ دَور ميں ہر کس و ناکس کے دل ميں جہاں عروج و اِرتقاء کی تمام منازل کو سر کرنے کی خواہش اُبھرتی ہے وہیں بعض لوگ چند لمحوں میں بامِ عروج تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر جب بُری طرح ناکام ہوتے ہیں تو اُن کی نگاہوں کے سامنے ہر چہار جانب ناکامیوں کے سیاہ بادل سایہ فگن ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ آج کے پر آشوب دَور میں نوجوانوں کا یہ ذہن بن چکا ھیکہ اُردو سے انہیں اِس دَور ِ جدید میں کسی طرح سے بھی کامیابی نہیں مل سکتی اور ذندگی کے کسی بھی موڑ پر کامیابی و کامرانی کا سہرا اُن کے سر پر نہیں بندھ سکتا ہے اور فتح و کامرانی کبھی بھی اُن کے قدم نہیں چوم سکتی!۔ اگر وہ اپنی تمنّاؤں کے گلشن میں ایک سنہرا پھول کھلانا چاہتے ہیں اور گھن گھور تاریکیوں سے روشنیوں کی جگمگاہٹ کی طرف نکلنا چاہتے ھیں تو اُنہیں انگریزی سے نسبت رکھنی ہوگی۔ حالانکہ یہ بات اظہر من الشّمس اور سراسر غلط ہے کیونکہ اگر یہ معاملے ایسا ھی ھوتا تو اس صفحۂ ہستی سے اُردو کا نام و نشان مٹ چکا ھوتا، اور اُردو کی ترویج و اشاعت کرنے والے افراد کو بھوک و پیاس کی شدت سے دوچار ھوجاتے، جبکہ معاملہ اس کے برعکس ھے کیا۔ اُردو سے اُلفت رکھنے والے زمانے کے ساتھ شانہ بشانہ ملاکر نہیں چل رہے ہیں؟۔
کیا اِس دَورِ جدید کی اہم ضرورت یعنی (کَمپیوٹر) جیسے پیچیدہ عِلم سے اُردو والوں نے اپنے آپ کو آراستہ و پیراستہ نہیں کیا ھے!۔ کیا اُردو دُنیا پر بوجھ بنی ھوئی ھے؟۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ھوگا کہ اردو کی اس گوناگوں ترقی کے باوجود اردو والوں نے اسے ڈبونے میں کوئی کسر نہیں اُٹھارکھی۔ اسی لئے آج مسلم معاشرہ اُردو سے کوسوں دور نظر آرہا ھے مغربی تہذیب میں ھی اپنی کامیابی و کامرانی کے راز کو پنہا سمجھا یہی وجہ ہے کہ مسلمان اپنے روز مرّہ کے مسائل سے اچھی طرح واقف ہونے کے باوجود اُن سے اُبھر نہیں پارہے ہیں۔ کیوں کہ مسائل کا شافی حل نہ تو انہیں انگریزی زبان میں دستیاب ہوسکتا ہے اور نہ ہی ھندی میں اگر وہ اپنی دنیا و آخرت کو کامیاب بنانا چاہتے ھیں تو اردو کے دامن کو مضبوتی سے سے تھام لیں اور قرآنِ مجید میں غوروفکر کریں۔ اپنے لڑکوں اور بچّوں کو اردو کی طرف مائل کرنے کی بھرپور کوشش کریں، ھم خود اردو سے سوتیلا سلوک کرنا چھوڑ دیں۔ دنیا والوں نے دیکھا جب بھی قومِ مُسلم کو کوئی بھی مسئلہ درپیش ھوا تو اُنہیں اردو کا ھی سہارا لینا پڑا۔ لہٰذا ھم نوجوان طبقہ کے ھرادنی و اعلیٰ سے گذارش کرتے ہیں اردو کی فلاح و بہبود کے لئے ایک مثبت مشَن ضرور قائم کریں اور اُسے پایۂ تکمیل تک پہنچائیں۔
--------------------------------

میرے تاثرات
اگر اردو والوں نے "معیار" کا یہی حال رکھا تو مجھے بھی اردو کو زندہ نہ رکھنے میں خوشی ھی ھوگی۔
٭ سوالیہ نشان کے بعد وقفہ کا استعمال "؟۔"
٭ کہیں سوالیہ نشان کی جگہ تعجّبیہ نشان کا استعمال۔
٭ "زمانہ کے ساتھ شانہ بشانہ ملاکر چلنا" محاورہ میں بیجا و غلط طول۔
٭ جابجا وقفہ "۔" حذف کرکے جملے مِلادینا۔
٭ جملے کے بیچ بیجا وقفہ لگاکر تسلسل توڑدینا۔
٭ "اظہر مِن الشّمس اور سراسر غلط" جیسے تضاد آمیز محاورہ سے قاری کیلئے مشکل پیدا کرنا۔
٭ "اشاعت کرنے والے افراد کو بھوک و پیاس کی شدت سے دوچار ھوجاتے" میں غیر ضروری لفظ "کو"۔
٭ لفظ کمپیوٹر ناحق ھی قوسین کی قید میں۔

خدارا، کبھی تو کچھ معیار کا دِکھاوا ھی کردیا کرو میرے ھم زبانو!

--باقی خامیوں کی تلاش قارئین کیلئے مشق--

Monday, October 10, 2005

چُهوٹے مُوٹے جَهٹكے

تراويح سے فارغ هوكر باهر قدم ركهّا هى تها كہ ايك اجنبى صاحبِ كم ريش نے كہا "كشمير ميں بُھوكَمپ آيا هے"۔ "كشمير ميں زلزلہ!" ميں بڑبڑايا۔ دو قدم آگے ايك نوجوان كہہ رها تها "اسلام آباد ميں بهى اَرتھ كُويك هُوا هے"۔ ميں نے گهر پہنچ كر سيدهے اپنے زانوى (لَيپ ٹَوپ) كا رُخ كيا، اور اُس ميں لا سلكى نظام (وائِر لِيس كارڈ) ٹُهونسا، ليجئے اب ميں انگريزى الجَزِيرَه پر دِلخراش رُوداد پڑھ اور تصاوير ديكھ رها تها۔

ميرى اپنے ايك رشتہ دار سے فون پر جب گفتگو هوئى تو انہوں نے بهى "بُھوكَمپ" كا حال بيان كيا۔ يہ صاحب ايك اردو مُدرّس ہيں۔ پهر ايك مسلم دوست سے گفتگو كے دوران انہوں نے بهى "اَرتھ كُويك" كا رونا رويا۔ ميں نے جب لفظ زلزلہ كى طرف توجّہ مبذول كرنى چاہى تو وه پهٹ پڑے "لو! وہاں دنيا ماتم منارہى هے اور تم هو كہ پهر سے اردو ميں زلزلہ هوتا هے كا وِرد كررهے هو! يہ آپكى گاڑى ايندهن ميں كچرا آجانے كے مترادِف اردو پر ہى كيوں اٹك جاتى هے؟"
ميں نے شرارتى انداز ميں كہا "آپ بُهوكـَمپ پـِيڑ ِت يعنى زلزلہ مُتاثرين كى امداد كرنے كب كُوچ كرنے والے ہيں؟ ميرى بهى اِمداد ليتے جائيے گا۔ ميں اردو كا سوگ اكيلے هى منارہا ہوں اِسلئے آ نہيں سكتا"۔

پهر آج صبح جو انگريزى اخبارات پر نظر پڑى تو ايك نے مرحومين كى تعداد ٢٠٫٠٠٠ تو دوسرے نے ٣٠٫٠٠٠ بتائى۔

سچ مُچ، اِس زلزلے نے سبهى كو ايك مرتبہ پهر حواس باختہ كرديا هے؛ مسلمان زبان بُهولے تو اخبارات اعداد و شُمار۔
ليكن هم سب انسانوں كى، نا انصافى سے غفلت و انا پرستى كو ايسے "چهوٹے موٹے جهٹكے" ہلانے سے رہے۔

زلزلوں، طُوفانوں اور جنگوں كا دردناك دَور

محترم اجمل صاحب نے وه ياديں تازه كرديں جب ميں اپنے بچپن ميں محلّہ كى مسجد ميں جُمَعہ كيلئے جاتا تها۔ وہاں ايك بزرگ يہ دُعا كيا كرتے تهے۔ وه همارے نانا كے چهوٹے بهائى اور ايك فارغ مُدرّس تهے۔ زلزلہ كى حاليہ تباہى اور اِس دردناك دَور ميں اِس سے بہتر دُعا كيا هوسكتى هے!

آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لئے
بادلو ہٹ جاؤ دے دو راہ جانے کے لئے

اے دعا ہاں عرض کر عرش ِ الہی تھام کے
اے خدا اب پھیر دے رُخ گردش ِ ایّام کے

ڈھونڈتے ہیں اب مُداوا سُوزش ِ غم کے لئے
کر رہے ہیں زخم ِ دل فریاد مَرہَم کے لئے

اے مددگار ِ غریباں، اے پناہ ِ بے کـَساں
اے نصیر ِ عاجزاں، اے مایۂ بے مائیگاں

رحم کر تُو اپنے نہ آئین ِ کرم کو بھول جا
ہم تجھے بھولے ہیں لیکن تو نہ ہم کو بھول جا

خـَلق کے راندے ہوئے دُنیا کے ٹھُکرائے ہوئے
آئے ہیں آج در پہ تیرے ہاتھ پھیلائے ہوئے

خُوار ہیں بدکار ہیں ڈوبے ہوئے ذلّت میں ہیں
کچھ بھی ہیں لیکن تیرے محبوب کی اُمّت میں ہیں

حق پرستوں کی اگر کی تو نے دلجُوئی نہیں
طعنہ دیں گے بُت کہ مُسلم کا خُدا کوئی نہیں

حالِيہ نقشۂ اوقاتِ سحروافطار

Saturday, October 08, 2005

جديد رَمادَهان ٹائِم ٹيبل

آج سے تقريباً ٥ سال پہلے ماهِ رمضان كى آمد پر "تختۂ اوقات برائے رمضانُ المبارك ١٤٢١ھ" كا جيبى ناپ كا تُحفہ تقسيم كيا جاتا تها۔ يہ نَقشہ ٢ سُتونوں ميں تَہہ هُوا كرتا تها ايك كِتابچَہ كى مانِند؛
اندرونى ٢ صفحات پر نصف ماهِ رمضان دائيں جانب جس كے اوپر "روزه كى نيّت" عنوان كے تحت عربى ميں نِيّت لكهى هوتى تهى، اور بقيہ مہينہ بائيں جانب جس كے اوپر "اِفطار كى دُعا" عربى ميں۔

نوٹ عربى هِندسے 1 2 3 وغيره كو كہا جاتا هے (جنہيں هم انگريزى كہہ ديتے هيں) اور انگريزى اصلاً رُومَن هِندسے I II III IV استعمال كرتى تهى۔ اِسى وجہ سے ١ ٢ ٣ كو يُونِيكُوڈ ميں عربى كى بجائے "اِنڈِك" كا نام ديا گيا هے، جو هِند كى طرف اِشاره بهى كرتا هے (اِنہيں هم اردو كہہ ديتے هيں)۔

نقشے كے هر نصف ميں ٥ ضمنى سُتون هُوا كرتے؛ بالترتيب ايّام(پِير تا اِتوار)، رمضان(١ تا ٣٠ هندسے)، دسمبر(1 2 3 عربى هندسے)، ختمِ سحرى(٥ بجكر ٢٠ منٹ) و وقتِ افطار(بجكر منٹ كى صورت ميں)۔
اسكے علاوه سرِ ورق پر نجانے كيوں مسجدِ نبوى كا سبز گنبد يا خانۂ كعبہ كا كالا مكعب هوتا اور آخرى صفحہ پر"دُعائے قُنوت" اور "تراويح كى دُعا" عنوانوں كے تحت عربى ميں دُعائيں بهى۔ خاص و عام رمضان بهر اِسے جيب ميں لئے گهومتے اور تراويح ميں هر ٤ ركعات كے بعد ہاتهوں ميں نظر آتا۔

آئنده سال ٢ تبديلياں رونما هوئيں؛
دسمبر DEC بَنا اور ٥ بجكر ٢٠ منٹ 5:20 بنا ؛ ليكن اب بهى وه بَهلا هى لگتا اور غالباً ذياده آسانى سے پڑها جاسكتا تها۔

اگلے سال يہ هوا كہ رمضان ١ تا ٣٠ كى بجائے 1 تا 30 هوگيا، اور عنوان بنا "اوقاتِ سحرى و افطار ماهِ رمَضانُ المبارك RAMZAN TIME TABLE"۔ اسطرح اردو هندسے پورى طرح مِٹے اور اردو ميں انگريزى مہينہ كا نام بهى۔

٢ سال قبل ايام اتوار پير اور دعائيں ديوناگرى ميں "بهى" لكهى جانے لگيں۔ اب وه انتہائى گنجان اور تختۂ ميزان نظر آرہا تها۔

گذشتہ سال اُسكى صفائى هوئى؛ دعائيں اور دن اتوار پير بهى صرف ديوناگرى ميں لكهے گئے۔ بينُ الاقوامى خانۂ كعبہ كى جگہ قومى مَزاروں مثلاً اَجمِير شَريف نے لى۔ اور سارے عنوان ديوناگرى ميں "هى" لكهے جانے لگے۔

اِمسال روزے جو ١ ٢ ٣ سے 1 2 3 بنے تهے وه اب ديوناگرى هندسے بنائے گئے۔ اب وه تقريباً اپنے نُقطۂ عُروج پر پہنچ چكا هے۔ اردو و عربى الفاظ و هندسے ديوناگرى ميں اور بقيہ صرف رومن ميں۔ كيا عالمى امتزاج هے! خاص و عام اب اِسے "رمضان ٹائم ٹيبل" بلاتے هيں۔

آئنده كيلئے ميرى پيشن گوئى هيكہ ٢ مختلف تختۂ اوقات هونگے؛
ايك صرف انگريزى (خالص رومن) جسميں SUN MON دن هونگے اور رمضان كا صرف ايك جگہ ذكر هوگا "RAMADHAN TIME TABLE"۔ تاريخ صرف عيسوى هوگى۔
دوسرا خالص هندى هوگا جسميں سوموار منگلوار دن اور سارے هندسے صرف ديوناگرى ميں لكهے هونگے اور عنوان ميں "RAMJAAN TAIM TEBAL" بهى هوگا۔

Wednesday, October 05, 2005

بَحر، بَحيرے اور خَليجيں


ميں اِن كے اردو نام بهولنے لگا هوں، كيونكہ شايد ميرے علاوه نہ كوئى اب اِنہيں سُنتا هے، نہ سمجهتا هے اور نہ هى ياد ركهنا چاہتا هے۔

بحرِ هِند = Indian Ocean
بحرِ اُوقيانُوس = Atlantic Ocean
بحرُ الكاہِل = Pacific Ocean

بحيرۀ عَرَب = Arabian Sea
بحيرۀ خِضَر = Caspian Sea
بحيرۀ اَسوَد = Black Sea
بحيرۀ مُردار(البحر الميّت، بحر لُوط) = Dead Sea
بحيرۀ اَحمَر = Red Sea
بحيرۀ رُوم (البَحرُ المُتَوَسِّط) = Mediterranean Sea

خليجِ بَنگال = Bay of Bengal
خليجِ فارِس = Persian Gulf
خليجِ عَدَن = Gulf of Aden
خليجِ عَقَبَہ = Gulf of Aqabah
خليجِ قُلزُوم = Gulf of Suez

Monday, October 03, 2005

اَنكل سَيم

اردو كا اخبار اُٹهايا تو لفظ "راجدَهانى" لِكها نظر آيا اور ميں اپنى بدنامِ زمانہ بے وقوفى كے تحت چِلّا اُٹها "يہ لوگ هِندى كو اردو رسمُ الخط ميں لكھ كر اُس كا بهى ديواليہ نكال دينگے"۔
ميرے ايك 'سِيكُيولَر مُسلم' دوست نے ٹوكا "تُم سمجهتے هو كہ اردو عربى و فارسى كى جاگير هے جو پايۂ تخت، دارالحكومت، مركز اور دارالخلافہ جيسى خُرافات ميں پڑے هو"۔ اور كہا "بتاؤ تو، تخت كہاں هے كہ اُسے پايۂ تخت كہيں؟ بادشاہت كہاں هے كہ اُسے دارُالحكومت كہيں؟ خِلافت كہاں هے؟ اور مركز تو اپنے قصبہ ميں بهى هے!"۔
ميں نے كہا "اب تم بتاؤ كہ راجا كا راج كہاں هے؟ اور حكومت تو هے نا اُسے دارالحكومت كہلانے"۔
يہ تكرار همارے پڑوسى چچا سن رہے تهے، وه نازل هوئے اور هميں للكارا "تعليم يافتہ هِندوستانى هونے كے باوجود زبانوں پہ لڑتے هو، شرم نہيں آتى؟"
اور كہنے لگے "پہلى بات تو يہ كہ زبان وه جو لوگوں كو سمجهے، دوسرى يہ كہ اوروں كى زبان كا احترام لازمى هے"
ميں نے شكايت كى "آپ كى بات صحيح ليكن مطلب غلط هے۔ ميرى رائے ميں آپ كے مطابق اگر زياده لوگ خراب كو كهراب بوليں تو وه زبان هے"
مزيد كہا "اگر ميں اوروں كى زبان نہ بولوں اور وه ميرى زبان نہ بوليں تو يہ همارى زبانوں كى بے عزتى هے؟"
انهوں نے كہا "ميں تمہارا پيچيده مطلب سمجهنا نہيں چاهتا، قربانى سے هى بهلائى بڑهتى هے" مزيد گويا هوئے "تم نئى پيڑهى كو قومى يكجہتى اور ہمہ گيرى دونوں كو پروان چڑهانا هے"
لہٰذا انہوں نے يہ فيصلہ سنا ديا "مياں، آج سے تم راجدهانى كہوگے اور تمہارے دوست كـَـيپـِـٹَل، پهر تم لوگوں كى قربانى كيا رنگ لاتى هے ديكهنا"
ميں نے كہا "مجهے يہ منظور نہيں كيونكہ قربانى صرف ميں دے رہا ہوں، يہ نہيں"
وه غصّہ هوگئے "تم تو كٹّر انسان هو، انا كے غلام، اور نہ هى تم ميں كچھ نيا سيكهنے كا جزبہ هے، تم تو وہيں رهوگے" اور كہا "ديكهو اِس كى دريادلى و قربانى، وه اپنى راجدهانى چهوڑ كر كيپٹل بولنے پر راضى هوگيا تها، ليكن تم تو ہمہ گيرى سے خائف هو"

Saturday, October 01, 2005

"h" دُنيائے هيچ


هيچ تو ايك عام لفظ هے، جو يوں استعمال هوتا هے؛
"دوسروں كو هيچ سمجهنا"۔ اِسطرح هيچ كے لَغوى literary معنى هوئے "كـَـمتَر"۔
ليكن جُنوبى هِند (معذرت خواه هوں) ميں "هيچ" ايك لفظ نہيں بلكہ حرف هوتا هے يعنى رُومن "h"۔

ميرى معلومات ميں شايد كوئى حرف اِتنا ذياده زيرِ استعمال نہ رہا هو۔
سوال اُٹهتا هے "آپ اِس هيچ سے كيا كرسكتے هيں؟" جواب هے "كيا نہيں كرسكتے!"۔
هيچ كى مثال تو پكوان ميں تيل جيسى هے؛ كم هو تو مزه نہيں آتا، تهوڑا زياده بهى هو تو چل جاتا هے۔

٭ اب قُدرَتُ اللّه صاحب كو ديكهئے اُنہوں نے اپنے بهونڈے سے نام qudratullah كو هيچوں سے يوں سَجايا khudrathullah ۔
٭ اور اُن كے بهائى هِدايَتُ اللّه صاحب جو اپنے نام hidayatullah كو ليكر پريشان رهتے تهے hidayathulla پاكر اب صدا مُسكراتے رهتے هيں۔
٭ قادرى صاحب كے qadri كى بہ نسبت khadri كتنا ديده زيب لگتا هے۔
٭ مُورتِى صاحب كى لڑكى sujata krishnamoorti جب قديم نام كى وجہ سے كالج سے كترانے لگى تو اُسكى سہيلى نے sujatha krishnamurthy تجويز كيا۔
٭ حاليہ فِلم ميں اَمبَر كے نام ambar كو humber كہنے پر ناظرين كا كچھ وقت تو دل بہل هى گيا۔

هيچ اِتنا مَقبُول هوا كہ اَربُوں كى تعداد كے علاوه عَرَبوں تك بهى پہنچ گيا
٭ حَديث كو ليكر پريشان عرب اب تكليف ده hadees كو اطمينان سے hadith لكھ ليتے هيں۔
٭ اور اِسكى جمع احاديث اب مشكل ahaadees كى بجائے سَليس hadiths لكهى اور ياد بهى ركهى جاسكتى هے۔

يہ هيچ ايك بڑا هى كـَراماتى حرف هے
٭ اگر t لكها جائے اور لوگ اسے ٹ پڑهتے هيں؛ آپ اس كے آگے هيچ لگا ديجئے اور لوگ th كو اب ت پڑهيں گے؛ مثلاً karamathi يعنى كراماتى۔
٭ اگر لوگ s كو س سمجهتے هيں ليكن آپ كى مراد هے ث؛ ليجئے t كو هيچ لگا ديجئے اور لوگ th كو اب ث پڑهيں گے؛ مثلاً hadith يعنى حديث۔
٭ اگر آپ ٹهنڈا لكهنا چاهتے هيں؛ شوق سے t كو هيچ لگا ديجئے اور لوگ th كو اب ٹھ پڑهيں گے يعنى thanda۔
٭ اگر آپ تهوك لكهنا چاهيں تو يہ بهى آسان هے؛ شوق سے t كو هيچ لگا ديجئے اور لوگ th كو اب تھ پڑهيں گے يعنى thook۔

In short, "h" can be a very good medium to convey what's on your mind.