Wednesday, November 29, 2006

اردو تعلیمی ادارے صرف لڑکیوں کیلئے

ایک مسلم حضرت مجھ سے ملنے آئے۔ باتوں باتوں میں اردو کا ذکر چھڑا۔ کہنے لگے کہ دو سال قبل درجہ دہم میں جس لڑکی نے نمایاں کامیابی حاصل کی تھی وہ ہماری بھتیجی ہی تھی۔ مجھے یاد آیا کہ یہ لڑکی اینگلو انڈین گرلس اسکول کی طالبہ تھی اور اخبارات میں اس کی کامیابی کے کافی چرچے ہوئے تھے۔ انہوں نے اُس اسکول کے معیار ِ تعلیم کو خوب سراہا۔ پھر کہنے لگے کہ اینگلو انڈین اردو بوائیز اسکول بہت ہی غیر معیاری ہے۔
میں نے پوچھا "پھر لڑکوں کیلئے کونسا اردو مدرسہ معیاری اور قابل ِ اعتماد ہے؟" تو انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ لڑکوں کیلئے تو انگریزی مدارس ہی بہتر ہیں۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کہ صرف لڑکیاں ہی اردو کیوں پڑھیں؟ لڑکوں کو موقع کیوں نہ ملے؟ تو انہوں نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرکے بتایا۔ ان کا اشارہ اسکرٹ کی طرف تھا۔ ان کی منطق میں انگریزی مدارس لڑکیوں کیلئےجو لباس منتخب کرتے ہیں وہ ہمارے لحاظ سے نازیبا ہوتا ہے۔ اسلئے بے حیائی سے بچنے کیلئے لڑکیوں کو اردو مدارس بھیجا جائے۔ میں سوچنے لگا کہ یہی مسئلہ لڑکوں کے معاملہ میں بھی درپیش آنا چاہئے۔

ہم مسلمان انگریزی مدارس کی جدید تعلیم سے مستفید ہونا تو چاہتے ہیں لیکن مندرجہ ذیل میں سے کچھ بھی کرنے کیلئے تیار نہیں:
٭ اردو مدارس میں پیشے کے تئیں ایمانداری
٭ معیاری اردو مدارس کا قیام
٭ معیاری انگریزی مدارس کا قیام
٭ اوروں کے انگریزی مدارس کو یہ باور کرانا کہ کم از کم ہماری اولادوں کو جب آپ کے یہاں پڑھنے بھیج سکتے ہیں تو آپ کو ان کے کپڑے برداشت کرنے ہونگے۔

کوئی دن تو آئیگا جب دوسرے یہ بھی سمجھ لیں گے کہ یہ لوگ اردو مدارس کی آڑ میں عورتوں کو جدید تعلیم سے محروم رکھ کر اپنی روش برقرار رکھ رہے ہیں اسلئے اردو مدارس میں بھی انگریزی مدارس کا معیار نافذ کیا جائے۔

Thursday, November 23, 2006

ایک شعر

toofaan karraha tha mere azm ka tawaaf
duniya samajh rahi thi keh kashti bhaNwar meiN hai


kya aap shaa'er sahab jaante haiN?

Monday, November 13, 2006

سلیقہ

قمرالزّماں بھائی کی جانب سے اردو والوں پر یہ شعر بصورت ِ پیغام ِ مختصر (ایس ایم ایس) موصول ہوا۔


woh urdu ka musaafir hai yahi pæhchaan hai us ki
jidhar se bhi guzarta hai saleeqah chhoR jaata hai



انہوں نے رومن خط میں یہ شعر کچھ اسطرح لکھا تھا؛

Wo urdu ka musafire hai yahe pahchan hai use ki
jidhare se bhi guzerta hai salika chode jata hai
وو اردو کا مسافرے ہے یہے پہچان ہے اُسے کی
جدھرے سے بھی گزیرتا ہے سلیکا چوڈے جاتا ہے


خیر... اِس شعر کیلئے میں ان کا شکر گذار ہوں کہ انہوں نے اردو میں میری دلچسپی کا خیال تو رکّھا۔

...ایم آر پی بولے تو


ایم-آر-پی (M.R.P) کے معنٰے Maximum Retail Price ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں۔ کبھی تو M.R.P not to exceed تک لکھا ہوتا ہے۔ لیکن آخرالذّکر تو اوّل الذّکر سے بھی بڑا کذب ہے۔ یہ دونوں سراسر جھوٹ اور بحث کی جڑ ہی نہیں، ہم جیسے فضول تعلیم یافتہ کیلئے ناامیدی کا باعث بھی ہیں۔
میں منھ اٹھائے ایک دوکان پر پہنچا اور مغربی شربت (فَینٹا، مِرِنڈا، اِسپَرَائِٹ) مانگا۔ ان صاحب نے ایک بوتل اٹھاکر تھمادی۔ قیمت دریافت کرنے پر جواب ملا پچّیس روپئے۔
میں نے کہا "ایم آر پی بائیس ہے اور اس سے زیادہ کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا" جواب ملا "اسے یہاں دور تک لانا پڑتا ہے" مجھے یاد آیا کہ کہیں اور کسی دوکاندار نے غالباً یہ بھی کہا تھا "اسے ٹھنڈا رکھنے میں بہت بجلی لگتی ہے"
اب میرے ہوش ٹھکانے آئے۔ میں اتنی سی بات سمجھ نہیں سکا کہ یہ ہماری معلومات کا نقص ہے۔ جب کسی چیز کی قیمت ایم آر پی سے کم لی ہی نہیں جاتی تو M.R.P کا صحیح مطلب Minimum Retail Price ہی ہوا نا!
خیر میں اپنا سا منھ لیکر وہاں سے چل دیا...

Thursday, November 09, 2006

مدرسہ

ساتویں درجہ میں ہم نے اپنی جماعت کی دیواروں پر یہ شعر لکھ کر لگایا تھا

Wednesday, November 08, 2006

کھوسلا کا گھونسلہ


khosla ka ghosla غالباً ایک مزاحیہ فلم ہے جو حال ہی میں منظر ِ عام پر آئی ہے۔ فلم کا مقصد جو بھی ہو، نام میں جو خامی نظر آتی ہے وہ ہے لفظ گھوسلا(ghosla) جو دراصل گھونسلہ لکھا جانا چاہئے تھا۔
میں اِس بات سے اتّفاق کرتا ہوں کہ khosla ka ghoNsla/ghonsla لکھنے سے اس عنوان کی چُستی چلی جاتی۔ لیکن کیا صرف چستی کیلئے ہم نے غلط ہجّوں کی ترویج کرنی چاہئے!
یہ تو وہی بات ہوئی کہ ہندی (اردو کی بگڑی شکل!) ٹی وی والے جذباتوں، حالاتوں اور جگاہوں جیسے غلط الفاظوں (مسکراہٹ کے ساتھ پڑھیں) کا استعمال کرتے ہیں۔ شاید جذبات اور حالات میں انہیں جمع کا صیغہ محسوس نہیں ہوتا۔ افسوس کہ اب فلمیں بھی ہندی (یعنی اردو کی ایسی کی تیسی) بنتی جارہی ہیں۔

Friday, November 03, 2006

سفر ِعید اور تعلیمی تاش


عموماً ہر عید بطور ِ خاص عید الفطر پر میں اپنے وطن عید منانے جاتا ہوں۔
آجکل چونکہ عید اور دیوالی تقریباً ایک ہی ہفتہ میں منائے جارہے ہیں اسلئے سفر کا مسئلہ دو گنا ہوگیا ہے۔ جب ہم شہر سے اپنے قصبہ کیلئے نکلتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ لوگوں شہر چھوڑ کر بھاگ رہے ہوں۔ شہروں میں بسنے والوں کا دل دراصل اپنے اپنے وطن میں ہوتا ہے۔
یہی حال واپسی میں بھی رہتا ہے کہ اب ہر ایک بس شہر کی جانب بھاگ رہا ہے گویا دیہات و قصبے قحط زدہ ہوگئے ہوں یا یوں کہہ لیجئے کہ سب گیدڑ بن کر اس کہاوت کے مصداق شہر کی طرف بھاگ رہے ہوں۔

سفر کے اس مسئلہ سے نمٹنے کیلئے جب ہم نے اپنوں سے کہا کہ اس مرتبہ کیوں نہ عید شہر میں منائی جائے کہ مخالف سمت سفر انتہائی پر سکون اور آسان ہوگا، تو وہ راضی ہوگئے۔ ہماری دو باجیاں "مع شوہر و عیال" ہمارے یہاں پہنچ گئیں۔ انکے پانچ لڑکے ہیں جن کی عمریں چھ سے سولہ سال کے درمیان ہیں؛ ذیشان، دانش، خرّم، آفتاب، و فرّخ۔
یہ سبھی لڑکے اردو مدارس (اسکولوں) میں زیر ِ تعلیم ہونے کی وجہ سے انگریزی سے بہتر اردو جانتے ہیں۔ آفتاب تو پڑھنے سے ایسا شغف رکھتا ہے کہ کتابیں چھین لینی پڑتی ہیں۔ خدانخواستہ یہ ہماری آخری پیڑھی ہے جسے اردو تعلیم نصیب ہورہی ہے۔ ایک ہی دن میں ان بچّوں نے شور مچانا اور جھگڑنا شروع کردیا اور انہیں مصروف رکھنا ضروری ہوگیا۔ ہماری دلچسپی اور ان کی بیچینی کے سبب "تعلیمی تاش" کا خیال آیا۔ لیکن تعلیمی تاش اب آسانی سے دستیاب نہیں ہیں، شہروں میں تو بالکل نہیں۔

ہم نے بچوں سے دیوالی کے پٹاخوں کے خالی ڈبّے لانے کو کہا اور پھر اس کے ٹکڑے کیے۔ ہر ٹکڑے پر ایک حرف لکھا، الف سے ے تک اور دوبارہ الف سے ے تک۔ مزید از آں الف، و، ی اور ے کے دو دو اضافی تاش بنائے۔ ایک علیٰحدہ کاغذ پر حروف کی قیمتیں بھی لکھ لی گئیں۔ اسطرح عارضی تعلیمی تاش وجود میں آئے۔ بچّے اب فجر کے بعد، ظہر کے پہلے اور بعد بھی تاش کھیلنے میں مشغول رہتے۔ لیکن فوراً ہی ہمارا چین لینا پھر دوبھر ہوگیا۔ بچّے ایک دوسرے سے الفاظ پر بحث کرنے لگتے کہ اس لفظ میں ذ نہیں ز ہونا چاہئے۔ کوئی کہتا کہ اس لفظ میں تو ض ہوتا ہے۔ اس تکلیف کے باوجود مجھے بڑی خوشی ہوتی کہ علم اور خاص طور پر اردو زیر ِ بحث ہے۔

اب جب وہ لوگ عید کے بعد واپس چلے گئے ہیں میں نے فرصت ملتے ہی لیپ ٹاپ پر تاش بنائے ایک کاغذ پر نَو اور انہیں چھاپ لایا۔ اس چَھپے کاغذ کو دوسرے سخت کاغذ پر چسپاں کیا اور اوپر سے شفاف پلاسٹک کی تہہ چڑھا کر احتیاط سے ٹکڑے کیے۔ اب ان تاش کے پتّوں کو نہ پانی کا خطرہ ہے نہ میلے ہوجانے کا ڈر اور لگتے بھی پڑے بھلے ہیں۔
انتظار ہے تو بس کسی اردو والے کا کہ ایک بازی ہوجائے!