دہشت گردی کے خلاف
چند خاص باتوں پر درج ذیل مختصرات قابل ِ ذکر ہیں۔
"میں بُش کو دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد مانتا ھوں کیوں کہ میں ہر قسم کے ٹیراریزم کے خلاف ھوں جو شخص ٹیراریزم کی جانب بڑھتا ھے وہ ھندو یا مسلم نہیں رہ جاتا وہ حیوان بن جاتا ھے۔ اس کی وجہ ھے۔ کوئی بھی مذہب دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا۔ جو شخص دہشت گردی میں ملوث ھوتا ھے وہ مذہبی انسان نہیں ھوتا۔ جہاں تک بم دھماکوں کا سوال ھے، ابھی حال ھی میں بنارس میں دھماکے ھوئے ھیں، اس سلسلے میں میری رائے یہ ھے کہ کسی معصوم یا بے گناہ کو گرفتار کرنے سے پہلے انتظامیہ کو بہت تفصیل کے ساتھ پتہ لگانا چاہئے کہ یہ کس کی شرارت تھی۔ لیکن ھم دیکھتے ھیں کہ دھماکے کی واردات کو دو گھنٹے بھی نہیں گزرتے کہ ھمیں بتادیا جاتا ھے کہ اس میں فلاں کا ہاتھ تھا۔ دو گھنٹے میں کسی واردات کے ملزمین کا پتہ کیسے لگ سکتا ھے!"
"زبان کا تعلق کسی علاقے یا خطے اور وہاں کے کلچر سے ھوتا ھے۔ اردو کا تعلق ھندوستان سے ھے، مسلمانوں سے نہیں۔ ھم اپنے ملک میں بھی دیکھتے ھیں کہ مختلف ریاستوں میں رہنے والے مسلمان اُن ریاستوں کی زبان بولتے ھیں۔ لگان کی شوٹنگ کے دوران جب میں بُھج کی مسجد میں گیا تو دیکھا کہ وہاں امام صاحب کچھی میں تقریر کررہے تھے۔ کہنے کا مطلب یہ ھے کہ زبان کا تعلق مذہب سے نہیں ھے۔"
انکے علاوہ...
٭ عامر کو ٹی وی چینلوں کے "بِریکِنگ نِیوز کلچر" سے بڑی شکایت ھے، وہ ذاتی زندگیوں میں جھانکنے کی میڈیا کی کوششوں سے بھی نالاں ھیں۔ اُن کا کہنا ھے کہ کسی بھی شعبے کو اُس کے بنیادی مقصد سے انحراف نہیں کرنا چاھئے۔ آپ جب ھر خبر کو بریکنگ نیوز بنا دینگے تو خبر اور اھم خبر میں فرق کیا رہ جائیگا؟ ایسی ھی چند شکایات کے پیش نظر عامر نے میڈیا کو انٹرویو دینا بند کردیا۔
٭ عامر روانی کے ساتھ اردو نہیں پڑھ سکتے۔ جب راقم الحروف اس کی وجہ جاننے کی کوشش کرتا ھے تو وہ جواب دیتے ھیں "بچپن میں ھم لوگ بہت شریر تھے، والدین نے بالخصوص اردو کے تعلق سے بڑی کوشش کی کہ ھم اچھی اردو پڑھنے اور بولنے لگ جائیں لیکن..." یہی وجہ ھے کہ اب وہ اردو ادب کے موضوع پر لکھی گئی انگریزی کتابوں کے ذریعہ اپنے ذوق کی تسکین کرتے ھیں۔
٭ عامر خان اپنے بچوں (بیٹے جنید اور بیٹی آرہ) کو بھی اردو پڑھا رھے ھیں۔