Thursday, March 30, 2006

دہشت گردی کے خلاف



روزنامہ انقلاب میں گذشتہ اتوار کو ہندی (یعنی ہند کی) فلموں کے بہتریں اداکار عامر خان کا اِنٹَروِ یو شائع ھوا، جو دو صفحوں پر مشتمل تھا۔ اِس میں انہوں نے انقلاب کے مُدیر شاھد لطیف سے گفتگو کی

چند خاص باتوں پر درج ذیل مختصرات قابل ِ ذکر ہیں۔

"میں بُش کو دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد مانتا ھوں کیوں کہ میں ہر قسم کے ٹیراریزم کے خلاف ھوں جو شخص ٹیراریزم کی جانب بڑھتا ھے وہ ھندو یا مسلم نہیں رہ جاتا وہ حیوان بن جاتا ھے۔ اس کی وجہ ھے۔ کوئی بھی مذہب دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا۔ جو شخص دہشت گردی میں ملوث ھوتا ھے وہ مذہبی انسان نہیں ھوتا۔ جہاں تک بم دھماکوں کا سوال ھے، ابھی حال ھی میں بنارس میں دھماکے ھوئے ھیں، اس سلسلے میں میری رائے یہ ھے کہ کسی معصوم یا بے گناہ کو گرفتار کرنے سے پہلے انتظامیہ کو بہت تفصیل کے ساتھ پتہ لگانا چاہئے کہ یہ کس کی شرارت تھی۔ لیکن ھم دیکھتے ھیں کہ دھماکے کی واردات کو دو گھنٹے بھی نہیں گزرتے کہ ھمیں بتادیا جاتا ھے کہ اس میں فلاں کا ہاتھ تھا۔ دو گھنٹے میں کسی واردات کے ملزمین کا پتہ کیسے لگ سکتا ھے!"

"زبان کا تعلق کسی علاقے یا خطے اور وہاں کے کلچر سے ھوتا ھے۔ اردو کا تعلق ھندوستان سے ھے، مسلمانوں سے نہیں۔ ھم اپنے ملک میں بھی دیکھتے ھیں کہ مختلف ریاستوں میں رہنے والے مسلمان اُن ریاستوں کی زبان بولتے ھیں۔ لگان کی شوٹنگ کے دوران جب میں بُھج کی مسجد میں گیا تو دیکھا کہ وہاں امام صاحب کچھی میں تقریر کررہے تھے۔ کہنے کا مطلب یہ ھے کہ زبان کا تعلق مذہب سے نہیں ھے۔"

انکے علاوہ...

٭ عامر کو ٹی وی چینلوں کے "بِریکِنگ نِیوز کلچر" سے بڑی شکایت ھے، وہ ذاتی زندگیوں میں جھانکنے کی میڈیا کی کوششوں سے بھی نالاں ھیں۔ اُن کا کہنا ھے کہ کسی بھی شعبے کو اُس کے بنیادی مقصد سے انحراف نہیں کرنا چاھئے۔ آپ جب ھر خبر کو بریکنگ نیوز بنا دینگے تو خبر اور اھم خبر میں فرق کیا رہ جائیگا؟ ایسی ھی چند شکایات کے پیش نظر عامر نے میڈیا کو انٹرویو دینا بند کردیا۔

٭ عامر روانی کے ساتھ اردو نہیں پڑھ سکتے۔ جب راقم الحروف اس کی وجہ جاننے کی کوشش کرتا ھے تو وہ جواب دیتے ھیں "بچپن میں ھم لوگ بہت شریر تھے، والدین نے بالخصوص اردو کے تعلق سے بڑی کوشش کی کہ ھم اچھی اردو پڑھنے اور بولنے لگ جائیں لیکن..." یہی وجہ ھے کہ اب وہ اردو ادب کے موضوع پر لکھی گئی انگریزی کتابوں کے ذریعہ اپنے ذوق کی تسکین کرتے ھیں۔

٭ عامر خان اپنے بچوں (بیٹے جنید اور بیٹی آرہ) کو بھی اردو پڑھا رھے ھیں۔






Wednesday, March 29, 2006

پون سو واں مضمون - ایک شعر





Tuesday, March 28, 2006

کتاب گھر




یہاں کئی کتابیں خط ِ نستعلیق میں اعلانیہ طور پر نزول کیلئے دستیاب(بیتاب!) ھیں۔

کتاب گھر کی خوبیاں
٭ انٹرنیٹ پر مفت اردو کتابوں کا مرکز
٭ اردوستان سے منسلک
٭ غیر مطبوعہ کتب بھی دستیاب

یہاں فی الحال کتابوں کا کچھ ذخیرہ ھے اور امید ھے کہ اس میں اضافہ ھوتا چلا جائے گا۔

صفحہ خاص پر نیچے دو جانب انتہائی دلچسپ چیزیں ہیں؛
دائیں جانب "ادبی لطائف/بدیہہ گوئیاں/حاضر جوابیاں" ھیں تو بائیں "اشعار میں اردو محاورات کا استعمال"۔ یہ غالباً نِت نئے ھوتے ھیں۔




-- x --

Monday, March 27, 2006

رشید حسن خان صاحب - حصّہ اوّل

میں نے رشید حسن خان صاحب کا نام کبھی سنا نہیں تھا، وجہ شاید یہ رہی ھوگی کہ میرے اطراف زیادہ تر اردو بیزار/متروک لوگ بستے ھیں۔
والد صاحب نے اردو، فارسی اور انگریزی پڑھی لیکن انگریزی کو ایسی فوقیت دی کہ اردو سے بیزار ھوئے، جسکی اپنی وجوہات بھی ھونگی۔ لیکن حالات کچھ ایسے رہے کہ ہم نے اردو مدارس میں تعلیم پائی ورنہ ھم تو اردو سے نابلد ھی رہ جاتے۔ والد صاحب رسائل و جرائد لاتے بھی تو Illustrated Weekly یا India Today وغیرہ۔

رشید حسن خان صاحب کا نام اسوقت سنا جب ان کے انتقال کی خبر اردو اخبار میں پڑھی اور فوراً ھی ان کے بارے میں جاننے کا اشتیاق ھوا۔ اردو والوں سے میرے راہ و رسم نہ ھونے کی وجہ سے میرے لئے "گُوگَل" ہی واحد ذریعہ ھے۔ لیکن اس سے بھی خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ھوئے۔ میں اردو املا پر ان کی کتاب پڑھنے کیلئے پیچ و تاب کھانے لگا چوں کہ مجھے اس موضوع سے بیحد رغبت ھے۔

بالآخر سی-ڈیک پر مجھے ان کی ایک کتاب ملی۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ اول تو مفت کتاب مل گئی دوم یہ کہ وہ بھی pdf میں اور خط ِ نستعلیق میں۔ مجھے اور کیا چاھئے تھا!

اردو کیسے لکھیں(صحیح املا)
از رشید حسن خاں (مکتبہ جامعہ نئی دہلی)
١٫٠٩ میگا بائٹ کا نزول ھے جو ٦ حصّوں(pdf) پر مشتمل ھے۔ مندرجہ ذیل روابط سے حاصل کریں:
pdf-1(177KB),     pdf-2(250KB),     pdf-3(163KB)
pdf-4(175KB),     pdf-5(183KB),     pdf-6(177KB)

لیکن پڑھنے پر تھوڑی مایوسی ھوئی، جسکی وجہ یہ تھی کہ کئی نازک موقعوں پر کاتب نے شاید بڑی لاپرواہی سے ٹائپ کیا ھے (اگر میرے سمجھنے میں کوتاہی نہ ھوئی ھو تو)
مثلاً یوں لکھا ھے



اوپر کی اِس مثال میں مجھے صحیح و غلط الفاظ یکساں نظر آئے، یعنی صحیح و غلط "بیچ" میں شوشوں میں کوئی فرق نہیں ھے۔

اسی ویب صفحہ پر دوسری قابل ِ ذکر کتابیں درج ِ ذیل ھیں:
١- غالب کی آپ بیتی
٢- املا نامہ
٣- سِکّوں پر اشعار از سیّد نور محمّد
٤- تاریخ ِ زبان ِ اردو از مسعود حسین خاں
٥- تاریخ ِ ھند - عہد ِ وسطٰی
٦- اردو پر فارسی کے لسانی اثرات از عصمت جاوید
٧- دیوان ِ ظفر
٨- کلیات ِ سراج (اورنگ آبادی)
٩- نجات سے پہلے از قاضی سلیم
١٠- رائیگاں از بشر نواز
١١- پنکھڑی گلاب سی از رؤف انجم
١٢- اجالوں کا سفر از شاہ نصیر الدّین بِسمل
١٣- آہٹ از قاضی رئیس
١٤- تلافی از جاوید ناصر
١٥- مُجَرَّبات ِ تکمیلی از جلال الدین تکمیلی

Friday, March 24, 2006

اردو کو میرے وطن ِ عزیز کا تحفہ

میرا ایک ھم منصب "آدِتیہ گوکَھلے" ایک دوسرے ھم منصب "اَنوراگ کٹِیار" کو کسی بات پر چڑارہا تھا۔ بات کچھ یوں تھی کہ آخرالذّکر نے "پہلے" بیت الخلاء کو "آخری" کہہ دیا تھا۔ اوّل الذّکر نے مذاقاً کہا کہ شاید تم نے اردو پڑھ لی ہے اسلئے اُلٹا بول رہے ھو۔
میں نے رائے پیش کی کہ عبرانی (دائیں سے بائیں)، چینی(اوپر سے نیچے) اور انگریزی (بائیں سے دائیں) والے سبھی پہلی اور آخری چیز کیلئے یکساں معیار رکھتے ہیں۔

خیر! بات خوشگواری میں آگے بڑھی اور آدتیہ نے کہا کہ وہ نسخ و نستعلیق پڑھ لیتا ہے، چونکہ وہ سی-ڈَیک کے لسانی تحقیق کے شعبہ کیلئے کام کرچکا ہے۔
میرے یہ دریافت کرنے پر کہ آیا انہوں نے اردو، فارسی، عربی، پنجابی، سندھی و کشمیری کیلئے اب کوئی سوفٹ ویئر بنائے ہیں، یا ابھی تک صرف ہارڈویئر کارڈ ھیں دستیاب ہیں، اس نے مجھے http://www.tlid.gov.in کا پتہ دیا اور کہا کہ وہاں سے نستعلیق ایڈیٹر کا مفت نزول (ڈاؤن لوڈ) کیا جاسکتا ھے۔ میں نے کوشش کی لیکن وہ کھلا ھی نہیں۔

میں نے سی-ڈیک کے پتہ http://parc.cdac.in پر کامیاب کوشش کی۔
مفت "اردو ناشر لائِٹ" http://parc.cdac.in/NashirLite.htm سے حاصل کیا جو صرف ١٣ میگابائٹ کا ھے۔ یہ نستعلیق و نسخ دونوں میں کام کرتا ھے۔ ناشر پر اردو ٹائپ کرنے میں مزہ نہیں آیا۔
یُونی پیڈ پر میرے صوتی تخت ِ کلید (phonetic keyboard) کا مزہ ھی کچھ اور ھے!

اسلئے پہلے یُونی پیڈ میں ایک فقرہ لکھا۔
پھر اسے ناشر پر چسپاں کیا۔
پھر اسے CutePDF Writer پرنٹر http://www.cutepdf.com/Products/CutePDF/writer.asp کی مدد سے PDF مسودہ میں تبدیل کیا۔

اس طرح میری نستعلیق میں کچھ مفت لکھنے کی دیرینہ خواہش پوری ھوئی، جسکے لئے میں یونی پیڈ، ناشر-سی ڈیک اور کیوٹ پی ڈی ایف رائٹر ان تمام مفت نوازوں کا تہہ ِ دل سے مشکور ھوں۔

اسی PDF مسودہ کا ایک نمونہ کاٹ کر Paint Brush پر چسپاں کرکے اسے gif میں نیچے پیش کیا ھے۔

Tuesday, March 21, 2006

عوام و قائدین

بد بخت ھیں وہ لوگ جن کے قائدین انہیں فرضی خطرات سے ڈرائیں۔
بد قسمت ھیں وہ لوگ جن کے قائدین انہیں حقیقی خطرات سے لاعلم رکھیں۔

Thursday, March 16, 2006

تنظیم ِ والدین اردو مدارس

تنظیم کے نائب صدر جناب مرزا ظفر بیگ صاحب سے کسی تقریب میں ملاقات ھوئی تھی۔ ان ھی کے طفیل تنظیم کے صدر جناب عبدالکریم عطّار صاحب سے خاص طور پر ملاقات کیلئے جانے کا اتّفاق ھوا۔
تنظیم کے دفتر کی حالت بالکل اردو جیسی ھے، پرانے شہر کے مومن پورہ محلّے میں ایک بوسیدہ سا کارخانہ جس کا دفتر صدر صاحب کا ذاتی دفتر کم اور تنظیم کا اھم مرکز ذیادہ ھے۔

صدر صاحب نے پہلے مجھ سے خوشی کا اظہار کیا کہ کسی غیر-بوڑھے شخص نے تنظیم کی سرگرمیوں میں دلچسپی دکھائی ھے۔
انہوں نے پہلے اس بات پر زور دیا کہ ھمیں اردو سے کوئی لگاؤ نہیں ھے حالانکہ ھم اس تنظیم کے دائرہ میں صرف اردو مدارس قائم کرتے ھیں۔ بلکہ ان کے اعداد و شمار کے مطابق جو مسلمان طلبہ و طالبات اردو مدارس میں داخلے لیتے ھیں ان میں سے ٧٠ فیصد درجہ دہم تک پہنچ جاتے ھیں، لیکن اس کے برعکس جو مسلمان مراٹھی و انگریزی مدارس میں داخلے لیتے ھیں ان میں سے صرف ٣٠ فیصد درجہ دہم تک کا سفر بخوبی طے کرتے پائے گئے ھیں۔
انہوں نے مزید اس بات کا بھی ذکر کیا کہ بہتیرے مسلمانوں نے ان کے اردو مدارس کے قیام پر وجوہات جاننے کے باوجود نکتہ چینی کی ھے۔

تنظیم چاہتی ھے کہ اس کے قائم کردہ مدارس کی خود نگرانی کرے اور انہیں سہولیات بہم پہنچائے لیکن اس کیلئے دائمی طور پر خطیر رقوم درکار ھونگی لہٰذا وہ مدارس کے قیام کے بعد اس بات پر ذیادہ توجّہ دیتے ھیں کہ ان کی باگ ڈور ریاستی حکومت کو سونپ دی جائے۔(میری رائے میں یہ ایک اچّھا خیال ھے کیونکہ اسطرح ھمارے ادا کئے گئے محصول کا کچھ تو حصّہ ھمارے اپنے لوگوں کی فلاح کے کام آئیگا)
تنظیم کے دفتر میں سارے ھی عمر رسیدہ حضرات تھے۔ نائب صدر نے ان کی ہمہ وقت مالی امداد کا ذکر بھی کیا۔

تنطیم نے اپنی کاوشوں کو ابھی تک غریب مسلم عوام کو تعلیم کی طرف دعوت دینے تک محدود رکّھا ھے۔
میں نے اپنا خیال ظاھر کیا کہ میں اس کار ِ خیر کے ساتھ ھی اس بات کا قائل ھوں کہ ھم نے اپنے متوسّط و متموّل طبقہ تک معیاری اردو تعلیم پہنچانے کیلئے کوئی ٹھوس قدم نہیں اُٹھایا ھے۔
لہٰذا کئی اردو پرست حضرات معیاری اردو تعلیم/مدارس کی عدم موجودگی کے تحت بہ دل ِ نخواستہ انگریزی مدارس کی طرف رجوع کرتے ھیں۔ اس ابھرتے طبقہ اور کھاتے پیتے خاندان کی اولادوں تک اردو کی رسائی کیلئے نجی/غیر سرکاری اردو مدارس کا قیام وقت کی ایک اھم ضرورت ھے۔

نائب صدر صاحب نے علیحدہ گوشے میں مجھ سے شکایت کی کہ بیشتر اردو مدرّسین اپنی اولادوں کو انگریزی مدارس روانہ کرتے ھیں۔ مزید یہ کہ خود ان کی خواہش کے برعکس ان کے اپنے پوتے انگریزی مدارس بھیجے جاتے ھیں۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں مانا۔

انہوں نے اسلام کے حوالے سے "جو چیز اپنے لئے پسند کرتے ھو وھی دوسروں کیلئے بھی پسند کرو" پر اردو مدرّسین کے ضمن میں قول و فعل کے فرق کو بھی اجاگر کیا۔
اسی قول/حدیث کے تحت اکثر مسلمان اس غلط فہمی کا شکار ھوگئے ھیں کہ اگر وہ اپنے بچّوں کیلئے معیاری تعلیم (یعنی انگریزی) پسند کرتے ھیں تو پھر انہوں نے دوسروں کیلئے وہی پسند کرتے ھوئے صرف انگریزی مدارس قائم کرنے چاہئیں۔
کیا یہ کہنا صحیح نہیں ھوگا کہ کم از کم وہ حضرات جنہوں نے اپنے لئے اردو کے ٹکڑے پسند کئے ھیں انہوں نے دوسروں کیلئے بھی وہی پسند کرنے چاہئیں۔

Friday, March 03, 2006

اہانت ِ رسول


اہانت کے پس ِ پردہ کارفرما ذہنیت
حضرت ابراھیم کی دو اولادوں میں سے حضرت اسمٰعیل جن کی والدہ بی بی ہاجرہ تھیں اسی سلسلہ سے حضرت محمّد صلعم ھیں۔
لیکن حضرات موسٰی و عیسٰی کا تعلق حضرت اسحاق کے سلسلے سے تھا جن کی والدہ سارہ تھیں۔
یہی ایک وجہ نظر آتی ھے کہ یہود و نصٰریٰ میں اتّفاق (یہودیوں کے ہاتھوں حضرت عیسٰی کے قتل کے باوجود) پایا جاتا ھے۔
لہٰذا یہ ان کے بھید بھاؤ کی ایک جیتی جاگتی مثال ھے۔ اگلا پیغمبر ان ھی کی "اعلٰی"(کم ظرف) نسل سے آنا تھا، جو ان کی صرف خام خیالی ھی نہیں ھے، بلکہ یہ ان کی اجارہ دارانہ ذہنیت کی نشاندہی کرتا ھے۔

عیسائیوں نے ہمیشہ اپنی گندی ذہنیت کا مظاہرہ کیا ھے
٭ جب رشدی نے اپنے حرامزادہ ھونے کا ثبوت پیش کیا تو وہ ان کی آنکھوں کا تارہ بن گیا۔ چہ معنی دارد؟ کس غلطی کا بدلہ لیا گیا تھا؟ مسلمانوں نے کیَا کِیا تھا ان کے "خدازاد خدا" کی شان میں؟ اور کس مسلمان کو ھم نے اُن کے اِس خدا کی خدائی پر انگلی اٹھانے پر داد دی تھی؟
٭ روس پر کبھی جمہوریت کی خاطر چڑھائی نہیں کی گئی۔ واہ کیا بھائی چارگی ھے! جمہوریت عیسائیت کے سامنے دُم دبا کر رہ گئی۔

اور دوغلے پن نے تو لاجواب کردیا
سوال یہ اٹھ رھا ھے کہ "نصف فی ھزار" احتجاجی مظاہرین مشتعل کیوں ھوئے؟
حالانکہ سوالات یہ ھونے چاھئیں کہ
کارٹون کیوں بنے؟
کیوں چھاپے گئے؟ (غلطی کا امکان نہیں، بش کے آگے غلطی سے صحیح لفظ "دہشت گرد" کیوں نہیں لگ جاتا!)
فوراًمعافی کیوں نہیں مانگی گئی؟ (مقصد تماشا بنانا تھا، اور یہ بھی دیکھنا تھا کہ بے دام غلامان کیسی حمایت کرتے ھیں)
اگر معافی نہیں تو سزا کیوں نہیں دی گئی؟ (سوچی سمجھی سازش تھی، عیسائی حرامزادوں کی جو بڑے چکنے بنے پھرتے ھیں، اپنے غلاموں میں)
اگر سزا نہیں تو پشت پناھی کا مطلب صاف ھے۔

اور تو اور
یہ کہا گیا کہ "ھم نے تو اپنے پیغمبر کے ایسے کتنے ھی خاکے برداشت کیے ھیں"
٭ بنانے اور برداشت کرنے والے بھی تم۔ ھم تو کبھی ایسی اوچھی حرکت کی نہ کروائی۔
٭ تم تو اپنے گرجوں میں بت پرستی کرتے ھو، ھم نہیں کرتے۔
٭ تم اگر کتّے کو اپنا باپ بلاتے ھو تو اس کا یہ مطلب نہیں ھوجاتا کہ تم میرے باپ کو کتّا کہو۔

سچ ھے، جس طرح مشرق والے صرف جوتے کی زبان سمجھتے ھیں اور جواباً سلام کرتے ھیں، اسی طرح مغرب والے صرف پیسے کی۔