Monday, January 30, 2006

بین الاقوامی برادری

بین الاقوامی برادری میں وہ ممالک شامل نہیں ھوتے جن پر ظلم ھونے جارہا ھو۔ لہٰذا اس برادری کا حصّہ بننے کیلئے اوّلین شرط مظلوم نہ ھونا ھے، جسکے لئے طاقتور ھونا لازمی شرط ھے۔ بین القوامی برادری پر ایک خاص برادری اور ان کے حواریوں کی اجارہ داری ھے۔ کسی اور برادری کے ملک کو طاقتور نہ بننے دینا بین الاقوامی برادری کا خاصّہ ھے۔

کسی ملک کو تاخت و تاراج کرنے کے فوراً بعد لوگوں کو قرعہ اندازی کا جو موقع دیا جاتا ھے اسے جمہوریت کہتے ھیں، جس میں اُن ھی جمہور کو حق دیا جاتا ھے جو ھم خیال ھوں۔ ایسے انتخابات نتائج سے قبل ھی لاثانی حد تک کامیاب قرار دیئے جاتے ھیں۔

کسی ملک کی اکثریت جب خود انتخابات کرتی ھے تو بھی جمہوریت قائم نہیں ھوتی حتّیٰ کہ بین الاقوامی برادری کے ھم خیال حاکم نہ بن جائیں۔
جب ھم خیال لوگ حاکم بن جاتے ھیں تو بھی جب تک وہ عوام کو اس برادری کے زیر ِ نگوں نہیں کردیتے، عوام غیر جمہوری اور وطن دشمن ھوتے ھیں، اور انکے حکّام مظلوم۔

اگر آپ نے کسی کے پیغمبر یا خدا کے ذلّت آمیز کارٹون نہ بنائے ھوں لیکن جب آپ کے ساتھ یہی کیا جاتا ھے تو اس پر معافی کا سوال خلافِ آزادئ اظہارِ خیال ھوتا ھے۔ جب آپ اِس کے ردّ ِ عمل میں اُس ملک کی اشیاء سے پرہیز کرتے ھیں تو بین الاقوامی برادری آپ کے ردّ عمل میں فعال ھو جاتی ھے اور دہائیاں اور دھمکیاں دینے لگتی ھے۔

جب آپ کسی کے حق بجانب ھونے کا اقرار کرتے ھیں تو آپ اس کی حمایت میں "رائے دہی سے پرہیز" کرتے ھیں۔

Friday, January 20, 2006

نا پسندیدہ صفحہ

کہیں اردو اخبارات زیر ِ بحث تھے۔
کسی نے کہا "اردو اخبارات میں سب سے ذیادہ نا پسندیدہ صفحہ فلمی ھوتا ھے"
وجہ ِ اعتراض پوچھی گئی تو جواب مِلا "فلمیں دیکھنا فحاشی ھے اور حرام بھی، تو پھر ایک اردو اخبار میں ان کا ذکر بھی کیوں؟"

بہتیرے اِس خیال سے متّفق ھوئے، کچھ نے نظر انداز کیا کیونکہ وہ تو صرف انگریزی اخبارات کے شیدائی تھے، علاوہ حضرات سوچ میں پڑ گئے۔

لیکن ایک شخص کسی اور ھی فکر میں تھا۔
اس شخص نے پوچھا "آپ میں سے کون حضرات اپنے بچّوں کو بہتر انگریزی سیکھنے کیلئے اخبارات پڑھنے کی تلقین نہیں کرتے؟"
کوئی جواب نہ مِلا۔ سبھی حضرات بخوبی جانتے تھے کہ انگریزی میں روانی حاصل کرنے کیلئے انگریزی اخبارات ایک اچھا ذریعہ ھیں۔
دوسرا سوال کیا "کیا آپ مانتے ھیں کہ ھندوستانی فلمیں دراصل اردو فلمیں ھوتی ھیں؟"
جواباً سب نے اثبات میں سر ھلایا۔
تیسرا سوال تھا "کیا سچ مچ آپ سبھی کے یہاں فلمیں مطلق دیکھی نہیں جاتیں؟"
جواباً سب ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ انہیں فلموں پر اعتراض تو تھا لیکن اہلیہ، بچوں و دیگر افراد ِ خانہ کی خوشی کی خاطر وہ اِس اصول میں ڈھیل برتتے تھے۔

اب اس شخص کے مزید کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہ رہی تھی۔ سب مان چکے تھے کہ یہ خیال اردو اخبارات پرذیادتی ھے، جن اخبارات کی بدولت فلموں کے زباں زد نام صحیح اردو میں دیکھنے مل جاتے ھیں۔
جب انگریزی سیکھنے کی خاطر اُن اخبارات کی ساری بے حیائیاں، ریشہ دوانیاں اور کوتاہیاں معاف کی جاتی ھیں تو اردو زبان کے معاملہ میں الٹا رویّہ کیوں!

مذہب کی ذمّہ داری غیر ضروری طور پر اردو اخبارات پر کیوں لادی جائے اور وہی ذمّہ داری انگریزی کی خاطر کیوں نظر انداز کی جائے؟ یہ منافقت نہیں ھے کیا؟

Wednesday, January 18, 2006

حالیہ تجدید ِ اردو

اردو اخبار انقلاب میں یہ الفاظ پائے گئے۔

جری: یہ لفظ زری ھے۔
غیر معتبر ذرائع بتاتے ھیں کہ فارسی لفظ زری کے معنی ھیں سونا۔ لیکن میرے خیال میں لفظ زر یعنی سونا۔

جردوسی: یہ لفظ زردوزی ھے۔
ایک غیر معتبر ذریعہ کا کہنا ھے کہ فارسی لفظ دوزی کے معنی ھیں کڑھائی یعنی کشیدہ کاری۔
دوزی کے اس معنی اور اوپر بیان کردہ زر کو ملانے پر معنی "سونے (کے تار) سے کی گئی کشیدہ کاری" ھونگے۔

تیوہار: یہ لفظ تہوار رہا ھے، اچانک تبدیلی کیوں؟

بھابھی: یہ لفظ بھابی ھے۔
بھائی کی بیوی یعنی بھا(ئی) بی(وی)۔

زویری: یہ لفظ جوہری ھے۔
بمبئی کا جوہری بازار اب زویری بازار کہلاتا ھے۔ اور جوہری اب زویری کہلاتے ھیں۔

Tuesday, January 17, 2006

کچھ علم ِ ھندسہ


ذُواَربَعۃُ الاَضلاع:
چار غیر ھم خطی نقاط جوڑنے سے جو بند شکل بنتی ھے، اسے ذواربعۃ الاضلاع کہتے ھیں۔
انگریزی اصطلاح Quadrilateral ھے۔

ذواربعۃ الاضلاع کی قِسمیں:
٭ اگر کسی ذواربعۃ الاضلاع کے مقابل کے ضلعوں کی ایک اور صرف ایک جوڑی متوازی ھو تو اُسے ذُو زَنقَہ کہتے ھیں۔
انگریزی اصطلاح Trapezium ھے۔


٭ اگر کسی ذواربعۃ الاضلاع کے مقابل کے ضلعے متوازی ھوں تو اُسے مُتوازی الاَضلاع کہتے ھیں۔
انگریزی اصطلاح Parallelogram ھے۔

متوازی الاضلاع کی قِسمیں:
٭ اگر کسی متوازی الاضلاع کے چاروں ضلعے متماثل ھوں تو اُسے مُـعِیَّن کہتے ھیں۔ زاویوں کی قید نہیں۔
انگریزی اصطلاح Rhombus ھے۔


٭ اگر کسی متوازی الاضلاع کے مقابل کے ضلعے مُتماثِل اور چاروں زاویے قائِمہ ھوں تو اُسے مُستَطِیل کہتے ھیں۔
انگریزی اصطلاح rectangle ھے۔


٭ اگر کسی متوازی الاضلاع کے چاروں ضلعے متماثل اور چاروں زاویے قائمہ ھوں تو اُسے مُرَبَّع کہتے ھیں۔
انگریزی اصطلاح square ھے۔


لہٰذا
جب کسی متوازی الاضلاع کے چاروں زاویے قائمہ ھوں تو وہ مستطیل بن جاتا ھے۔
جب کسی معیّن کے چاروں زاویے قائمہ ھوں تو وہ مربّع بن جاتا ھے۔

Saturday, January 14, 2006

بشکریہ انقلاب


روزنامہ انقلاب کے نام اس خط میں اپنی ہم وطن بہن کا اردو کے تئیں یہ جذبہ دیکھ کر دلی خوشی ھوئی۔

مٹھاس بھری زبان اُردو
سُنتے آئے ہیں کہ -اپنے بچوں کو مادری زبان کی تعلیم دی جائے- اردو ہماری ہندوستانی زبان ہے جسے غیر ملکوں میں بھی بے پناہ مقبولیت حاصل ہے۔ لیکن ماہرین ِ تعلیم کے مذکورہ بالا مشورے کے برعکس جتنا نقصان اِس زبان کو اپنوں سے پہنچا ھے اس کی مثال شاید دنیا میں نہ مِلے۔

ستم ظریفی یہ ھے کہ بہت سے شاعر، ادیب اور دانشور بھی اپنے بچوں کو انگلش اسکول میں تعلیم دلوارہے ہیں۔ اُردو کی روزی روٹی کھاکر اردو زبان سے یہ چشم پوشی نہیں تو اور کیا ھے! ضرورت ھے کہ ہم اپنے بچوں کو مادری زبان میں تعلیم دلوائیں اپنی دکانوں اور کاروبار کے بورڈ اردو میں لکھوائیں، اردو لکھیں، اردو پڑھیں اور اردو بولیں تاکہ ہمارے معاشرہ میں اردو کی مٹھاس باقی رہے۔

اس شیریں زبان کو آپ کے بھرپور تعاون اور عزم ِ مصمّم کی ضرورت ھے۔ اس لئے اس کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیں۔

سُمیّہ محمود شیخ - طالبہ، جامعہ اسلامیہ کُوسہ، مُمبرا-بمبئی

Thursday, January 12, 2006

عیـــــــــــــد

 

تمام راقمین و قارئین کی خدمت میں عید ِ قرباں کی پُر خلوص مبارکباد

براہ ِ مغرب

سابق صدر ِ ملیشیاء جناب مآثر محمّد کے "مہاتیر" اور "مہاتِھر" لکھے جانے کے بعد اب صدر ِ ایران جناب محمود احمدی نژاد کی باری ھے۔ گذشتہ چند مہینوں سے صحیح نام لکھتے ھوئے اردو اخبارات اب اُکتا گئے ھیں اسی لئے انکا نام اردو میں اب "احمد نجاد" لکھا جانے لگا ھے۔

اتفاق کی بات یہ ھے کہ دونوں اصدار اسرائیل پر مختلف انداز میں بیانات دیتے آئے ھیں۔ کیا اردو میں ناموں کا بگاڑا جانا اسی کا ردّ ِ عمل ھے؟
یا عربی-فارسی سے اب اسقدر دوری ھوگئی ھے کہ ان زبانوں کے نام بذریعہ انگریزی ھم تک لائے جانے لگے ھیں!

کچھ بھی ھو اردو ذرائع ابلاغ اپنے قارئین کو کمتر گردانتے آئے ھیں نتیجتاً قارئین چند ھی برسوں میں انکی غیر معیاریت کو خیر باد کہہ دیتے ھیں۔

Monday, January 09, 2006

عملی تہذیب - مغرب کا خاصّہ

میں علّامہ اقبال کو بہترین مُفکّر مانتا ھوں۔ لیکن کبھی کبھار مجھے اُن پر بہت غصّہ آنے لگتا ھے اور ان کی مشرق پرستی مجھے بہت چُبھتی ھے۔

اب ھمارے دفتر کو ھی لے لیجئے؛
١- ھر مکعب دفتر (کِیُوب) میں آئی-پی فون لگے ھیں، جن میں آواز ِ بلند (اِسپیکر فون) کی سہولت بھی ھے۔
اب جناب، میرے ھم پلّہ اپنے پڑوس والوں سے بھی بات کرتے وقت اس سہولت کا بے جا استعمال کرتے ھیں۔ نتیجتاً نہ صرف دو آوازوں کا شور ھوتا ھے، بلکہ صدائے باز گشت (گونج) بھی ظہور پزیر ھوتی ھے۔
٢- دُور کسی مکعب میں کوئی بآواز ِ بلند پھل کھا رہا ھے، جیسے "موگلی" جنگل میں لوٹ آیا ھو۔
٣- کسی کیوب میں چینی کی رکابی پر دھاتی چمچے سے نقارہ بجایا جارہا ھے، جیسے کھانے کا جشن ھو۔
٤- چند مکعب والے کسی ایک مکعب میں جمع ھوکر بآواز ِ بلند محو ِ گفتگو ھیں، جبکہ اِسی مقصد کیلئے مخصوص کمرہ (کانفرنس رُوم) خالی پڑا ھے۔
کہیں کسی کانفرنس روم میں میٹنگ چل رہی ھے لیکن دروازہ کھلا ھے، جبکہ اے-سی ھر گوشہ، یہاں تک کہ طہارت خانوں میں بھی، خوشگواری پھیلائے ھوئے ھے۔
٥- ایک ٹوکری میں تازہ "اِسٹَرا بیریاں" رکھی ھوئی ھیں، میرے ھم پلّہ صاحب ان میں سے بیشتر اٹھا کر چل دیتے ھیں، جیسے اس سہولت سے صرف انکا مستفید ھونا مقصود تھا۔

کیا یہ حالیہ مشرقی تہذیب نہیں ھے؟

ایسے اخلاق یورپ، امریکہ و جاپان میں دیکھنے نہیں ملے۔

میرے ھمسائے

اجمل صاحب نے نصیحت فرمائی "ہمیشہ خیال رکھئے کہ دوسرے کے لئے وہی پسند کیجئے جو آپ کو پسند ہو" جو ایک خوبصورت خیال ھے اور کئی برائیوں کا خاتمہ کرسکتا ھے۔

لیکن میں اور میرے ھمسایوں کیلئے یہی بات ایک مسئلہ بنی ھوئی ھے۔
معاملہ کچھ یوں ھیکہ مجھے خاموشی پسند ھے لیکن میرے پڑوسیوں کو شور شرابہ والی موسیقی۔
میری کار میں پارکنگ ھارن کو ایک سوئچ لگا ھوا ھے جس سے میں اُسے رات کو آتے یا باھر جاتے وقت خاموش کرلیتا ھوں۔ اس کے برعکس وہ لوگ صبح سویرے اپنے پارکنگ ھارن سے میری نیند خراب کردیتے ھیں۔ وہ شور کو پسند کرتے ھیں اور وہی میرے لئے بھی۔
اسکے علاوہ صبح وہ مجھے اپنی موسیقی سے جگا دیتے ھیں، جبکہ میں دیر رات جاگنے کے باوجود بھی اُن کی نیند میں خلل انداز نہ ھونے کا خیال رکھتا ھوں۔ میں خود خاموشی پسند کرتا ھوں اور وہی انکے لئے بھی۔

میں کیا کروں کہ ان لوگوں کو میری طرح خاموشی پسند آجائے جو میں اُن کیلئے پسند کرتا ھوں۔
دوسرا راستہ یہ ھوگا کہ میں اُن کا شور قبول کرکے وہی اُنکے لئے پسند کرکے اُن کی خدمت میں پیش کروں۔ یہ بظاہر تو حل نظر آتا ھے لیکن مسئلہ یہ ھیکہ اِس طرح کرنے سے کہیں میں اپنا طریقہ تو نہیں کھودونگا!

میں آگے کچھ کہہ تو نہیں سکتا، لیکن یہ شعر مجھے یاد آتا رہتا ھے؛

جو اِس زور سے مِیر روتا رھیگا
تو ھمسایہ کاھے کو سوتا رھیگا

Sunday, January 08, 2006

اردو پر داخلی مظالم

آج چونکہ صرف مسلمان ھی اور وہ بھی چند، اردو مدارس میں اپنی اولادوں کو بھیجتے ھیں، اسلئے اردو کے ضمن میں لفظ "مسلمانوں" سے میری مراد "اردو والے" ھوتی ھے نہ کہ اسلام کے پیروکار کی حیثیت سے۔

١- مردم شماری برائے اردو اقلیت
ھندوستان میں درحقیقت "اردو بولنے" والوں کی تعداد "اردو بولنے والے" کہلائے جانے والوں سے سیکڑوں گنا زیادہ ھے۔
پہلے زمرے میں فلمیں، غزلیں، البم اور عام بول چال شامل ھیں، جنہیں قصداً نظر انداز کیا جاتا ھے، اور دوسرے زمرے میں نجانے کیوں صرف اردو-تعلیم یافتہ لوگوں کا ھی شمار کیا جاتا ھے۔
یہ ایک قسم کی اندھیر گردی ھے جس میں مسلمان پوری طرح ملوّث ھیں، بلکہ یہ تقسیم ان ھی کا نکالا شاخسانہ ھے۔
خود میرے کئی رشتے دار جنہوں نے اپنے والدین سے تمام اردو محاورے وراثت میں پائے ھیں ان محاوروں کو ھندی بُلاتے ھیں۔ جس پر نکتہ چینی کرنے پر وہی گِھسی پِٹی قَسمیں کھائی جاتی ھیں کہ "ھم نے تو اردو نہیں پڑھی"۔ اب کیا یہ اردو کا قصور ھے کہ وہ ان سے پڑھے جانے کا شرف حاصل نہ کرسکی جبکہ والدین کو انگریزی نصیب نہ ھوئی تھی؟
ان میں سے کوئی اگر نصف انگریز ھوتا تو کیا انگریزی محاورے اِسی منطق کی رُو سے کسی اور زبان میں نہ ھوجاتے؟

٢- مسئلۂ رسم الخط برائے اردو دشمنی
اردو اگر انگریزی کے رسم الخط میں لکھی جائے تو بھی وہ انگریزی نہیں بن جاتی بلکہ رومن اردو کہلاتی ھے تو دیوناگری میں لکھے جانے سے اردو کیسے ہندی بن جاتی ھے؟

I somehow tend to call it domestic violence against a language which is not only hindering its development but also endangering its existence.

Saturday, January 07, 2006

تساہل

اردو اخبار والوں کو اب اردو تو ڈھنگ سے آنے سے رھی؛ بیچارے کیا کریں، صحیح اردو فیشن کا حصّہ نہیں ھے!
ابھی تین فلمیں آئی ھیں؛ shikhar ، kalyug اور ankush
اب ھمارے ھم زبانوں نے اسے اردو میں کچھ اسطرح لکھا؛
کلیوگ (یعنی kalyoog/yog)، شیکھر (یعنیsheekhar/shekhar) اور انکوش (یعنی ankoosh/kosh)
شاید اسلئے کہ اردو میں اعراب پر کوئی اَن کہی یا خود ساختہ پابندی لگی ھے بھلے ھی الفاظ میں بیجا طول کیوں نہ دینا پڑے!
اگر کلیُگ، شِکھر اور انکُش لکھتے تو کیا بُرا ھوتا؟

Thursday, January 05, 2006

قائد کا انتخاب

لفظ قائد(لیڈر) یہاں ایسے شخص کی طرف اشارہ کرتا ھے جو عوام، طبقہ یا قوم کی انکے مقاصد تک راہنمائی کرے۔ اِس ضمن میں قائد کسی پروجیکٹ مینیجر کی سی حیثیت رکھتا ھے۔ جو اہداف سے باخبر رہ کر ان کی تکمیل میں اھم کردار ادا کرتا ھے۔

قائدین کا انتخاب ھمیشہ سے مسلمانوں کیلئے مسئلہ رہا ھے، جسکی دو اھم وجوہات نظر آتی ھیں۔
١ قائدین کا غلط بنیادوں جیسے مذہب پرستی، برادری وغیرہ پر انتخاب
٢ قائدین کی کارکردگی پر شک اور اسکے تئیں بے صبری

تشریح ١-
ھم قائدین کا انتخاب کس لئے کرتے ھیں؟ تاکہ وہ ھمیں دوسرے قائدین کے شانہ بشانہ لیکر ھمارے جائز مقاصد کے حصول میں مددگار ھوں۔
اسلئے قائدین کا صرف مذہب شناس ھونا کافی ھے، مذہبی ھونا ضروری نہیں۔
مذہب شناس اسلئے کہ وہ مذہبی تقاضوں کی اہمیت سے باخبر رھے اور مذہبی فرسودگیوں کا شناسا بھی ھو۔
اسکے بر عکس اگر وہ لامذہب ھوگا تو مذہب اس کی نظر میں ایک پچھڑا پن ھوگا، بھلے ھی وہ سماجی دباؤ کی وجہ سے اس کے تئیں خاموشی اختیار کررکھے۔
لا مذہب شراب و سود کے حرام ھونے کو سمجھ اور مان نہیں سکتا، مذہب شناس اسے تسلیم کرتا ھے، بھلے ھی وہ مذہبی کی طرح صوم و صلوٰت کا پابند نہ بھی ھو۔
شراب و سود اور صوم و صلوٰت کے تئیں اِن مختلف رویّوں کی وجہ یہ ھیکہ شراب و سود سماجی برائیاں ھیں جبکہ صوم و صلوٰت سے لاپرواھی ذاتی کوتاھی۔
شراب و سود سے بچنے کی تلقین کی گئی ھے اور جو شخص اس سے گریز کرے وہ مذہب شناس کہلائے گا، جبکہ نماز و روزہ کی تلقین کی گئی ھے اور اس سے لاپرواہی مذہب پرستی میں ذاتی کوتاہی دکھاتی ھے۔
---

تشریح ٢-
---


دوسری جانب طرح مسلمانوں کیلئے کام کرنا ھمیشہ قائدین کا مسئلہ رھا ھے، جسکی جائز وجوہات ھیں

علاوہ ازیں مسلمان قائدین سے دوسروں کو مسائل بھی رھے ھیں